وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ لَا تَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰہَ ۟ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ قُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا وَّ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ؕ ثُمَّ تَوَلَّیۡتُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ﴿۸۳﴾
۸۳۔ اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا (اور کہا) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور (اپنے) والدین، قریب ترین رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں پر احسان کرو اور لوگوں سے حسن گفتار سے پیش آؤ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو پھر چند افراد کے سوا تم سب برگشتہ ہو گئے اور تم لوگ روگردانی کرنے والے ہو۔
83۔ وَ قُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا : قرآن میں متعدد مقامات پر حسنِ گفتار کی تاکید ہوئی ہے کیونکہ حسنِ گفتار میں جادو کا اثر ہے جبکہ بد کلامی سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خوش کلامی میں احترام آدمیت ملحوظ رہتا ہے۔ اس لیے قرآنی تعلیمات میں اسے مادی قدروں سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: قَوۡلٌ مَّعۡرُوۡفٌ وَّ مَغۡفِرَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ صَدَقَۃٍ یَّتۡبَعُہَاۤ اَذًی ۔ (2: 263) خوش کلامی اور درگزر اس خیرات سے بہتر ہیں جس کے بعد ایذاء دی جائے۔