قُلۡ اَنَدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنۡفَعُنَا وَ لَا یَضُرُّنَا وَ نُرَدُّ عَلٰۤی اَعۡقَابِنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدٰىنَا اللّٰہُ کَالَّذِی اسۡتَہۡوَتۡہُ الشَّیٰطِیۡنُ فِی الۡاَرۡضِ حَیۡرَانَ ۪ لَہٗۤ اَصۡحٰبٌ یَّدۡعُوۡنَہٗۤ اِلَی الۡہُدَی ائۡتِنَا ؕ قُلۡ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ الۡہُدٰی ؕ وَ اُمِرۡنَا لِنُسۡلِمَ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۷۱﴾

۷۱۔ کہدیجئے: کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر انہیں پکاریں جو نہ ہمارا بھلا کر سکتے ہیں اور نہ برا؟ اور کیا اللہ کی طرف سے ہدایت ملنے کے بعد ہم اس شخص کی طرح الٹے پاؤں پھر جائیں جسے شیاطین نے بیابانوں میں راستہ بھلا دیا ہو اور وہ سرگرداں ہو؟ جب کہ اس کے ساتھی اسے بلا رہے ہوں کہ سیدھے راستے کی طرف ہمارے پاس چلا آ، کہدیجئے: ہدایت تو صرف اللہ کی ہدایت ہے اور ہمیں حکم ملا ہے کہ ہم رب العالمین کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔

وَ اَنۡ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اتَّقُوۡہُ ؕ وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ﴿۷۲﴾

۷۲۔ اور یہ کہ نماز قائم کرو اور تقوائے الٰہی اختیار کرو اور وہی تو ہے جس کی بارگاہ میں تم جمع کیے جاؤ گے۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ ؕ وَ یَوۡمَ یَقُوۡلُ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ۬ؕ قَوۡلُہُ الۡحَقُّ ؕ وَ لَہُ الۡمُلۡکُ یَوۡمَ یُنۡفَخُ فِی الصُّوۡرِ ؕ عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ ؕ وَ ہُوَ الۡحَکِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ﴿۷۳﴾ ۞ؓ

۷۳۔ اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا اور جس دن وہ کہے گا ہو جا! تو ہو جائے گا،اس کا قول حق پر مبنی ہے اور اس دن بادشاہی اسی کی ہو گی جس دن صور میں پھونک ماری جائے گی، وہ پوشیدہ اور ظاہری باتوں کا جاننے والا ہے اور وہی باحکمت خوب باخبر ہے۔

وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصۡنَامًا اٰلِہَۃً ۚ اِنِّیۡۤ اَرٰىکَ وَ قَوۡمَکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۷۴﴾

۷۴۔اور جب ابراہیم نے اپنے باپ (چچا) آزر سے کہا: کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو؟ میں تمہیں اور تمہاری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھ رہا ہوں۔

74۔ آزر کی وجہ تسمیہ کے بارے میں یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ آزر نمرود کے بتوں کے خزانے کا انچارج تھا اور ماہرین کے مطابق فینقی (Phoenic) زبان میں بعل بت کے مجاور کو آزر بعل کہتے تھے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: آذر نمرود کا وزیر اور دار الاصنام (بتکدہ) کا انچارج تھا (نور الثقلین1: 737)۔

باپ کے لیے عربی میں دو الفاظ استعمال ہوتے ہیں: ایک اب جو حقیقی باپ، چچا اور دادا کے لیے استعمال ہوتا ہے اور دوسرا والد جو صرف حقیقی باپ کے لیے استعمال ہوتا ہے، جس طرح ابن حقیقی اور غیر حقیقی فرزند سب کے لیے اور ولد صرف حقیقی فرزند کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ آیت میں اب کا لفظ استعمال ہوا ہے جو حقیقی باپ بھی ہو سکتا ہے اور چچا بھی۔ جبکہ سورﮤ ابراہیم کی آیت 41 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آخری عمر کی دعا کا ذکر ہے جس میں آپ نے اپنے والدین کے لیے دعا کی ہے: رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ ۔ (ابراہیم:41) یہاں والد کا لفظ استعمال ہوا جو صرف حقیقی باپ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس سے واضح طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حقیقی والدین کا مؤمن ہونا اور آزر کا حقیقی باپ نہ ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔

وَ کَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لِیَکُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِنِیۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔اور اس طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کا (نظام) حکومت دکھاتے تھے تاکہ وہ اہل یقین میں سے ہو جائیں۔

75۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آسمانوں اور زمین کا ملکوتی نظارہ کرایا کہ یہ سب کس کی ملکیت ہے، ان پر کس کی حکومت ہے اور یہ کس کی کرشمہ سازی ہے؟ تاکہ وہ ایمان و ایقان کی اس منزل پر فائز ہو جائیں کہ آتش نمرود میں جاتے ہوئے جبرئیل امین جیسے مقتدر فرشتے کی مدد کو بھی ناقابل اعتنا سمجھیں۔ چنانچہ رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی افق اعلیٰ کی سیر کرائی تاکہ عقل و مشاہدہ دونوں سے بالاتر مرتبۂ یقین پر فائز ہو جائیں۔ مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی ۔

فَلَمَّا جَنَّ عَلَیۡہِ الَّیۡلُ رَاٰ کَوۡکَبًا ۚ قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ﴿۷۶﴾

۷۶۔چنانچہ جب ابراہیم پر رات کی تاریکی چھائی تو ایک ستارہ دیکھا، کہنے لگے: یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غروب ہو گیا تو کہنے لگے: میں غروب ہو جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

فَلَمَّا رَاَ الۡقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَئِنۡ لَّمۡ یَہۡدِنِیۡ رَبِّیۡ لَاَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡقَوۡمِ الضَّآلِّیۡنَ﴿۷۷﴾

۷۷۔پھر جب چمکتا چاند دیکھا تو کہا: یہ میرا رب ہے اور جب چاند چھپ گیا تو بولے: اگر میرا رب میری رہنمائی نہ فرماتا تو میں بھی ضرور گمراہوں میں سے ہو جاتا۔

فَلَمَّا رَاَ الشَّمۡسَ بَازِغَۃً قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ہٰذَاۤ اَکۡبَرُ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَتۡ قَالَ یٰقَوۡمِ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِکُوۡنَ﴿۷۸﴾

۷۸۔پھر جب سورج کو جگمگاتے ہوئے دیکھا تو بولے:یہ میرا رب ہے یہ سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو کہنے لگے:اے میری قوم! جن چیزوں کو تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو میں ان سے بیزار ہوں ۔

اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿ۚ۷۹﴾

۷۹۔ میں نے تو اپنا رخ پوری یکسوئی سے اس ذات کی طرف کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔

76۔ 79 جدید ترین تحقیقات اور کھدائیوں سے جو کتبے ملے ہیں ان سے پتہ چلا ہے کہ اس زمانے میں ہر شہر کا دیوتا جدا ہوتا تھا اور ہر دیوتا کسی ستارے، چاند یا سورج سے مربوط سمجھا جاتا تھا۔ اب تک پانچ ہزار خداؤں کے نام ملے ہیں۔

قوم ابراہیم کی ستارہ پرستی کا تصور کچھ اس طرح تھا کہ سورج بادشاہوں کی تدبیر کرنے والا، ان میں شجاعت اور پیشقدمی کی روح پھونکنے والا، شاہوں کے لشکر کو فتح اور ان کے دشمنوں کو شکست دینے والا رب ہے، ستارہ زحل کو بینی کا نام دیتے

تھے، اس کی خاصیت بھی تقریباً یہی تھی۔ ستارہ مشتری کو مرداخ کہتے تھے اور اسے بڑا رب کہتے تھے جو عدل و انصاف کا رب ہے۔ ستارہ مریخ کو انکال کہتے تھے۔ یہ شکار اور جنگوں کا رب ہے۔ ستارہ زہرہ کو عشقار کہتے تھے۔ یہ سعادت و خوشحالی کا رب ہے۔ آثار قدیمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زہرہ سے منسوب بت ایک برہنہ عورت کی شکل میں ہے اور عطارد کو نبو کہتے تھے اور یہ علم و حکمت کا رب ہے۔

ایسے ماحول میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک بیمثال عقلی و فکری صلاحیت کے ساتھ توحید کی دعوت شروع کرتے ہیں ارشاد فرمایا: وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ رُشۡدَہٗ مِنۡ قَبۡلُ وَ کُنَّا بِہٖ عٰلِمِیۡنَ ﴿﴾ ۔ (انبیاء: 51) اور بتحقیق ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے عقل کامل عطا کی تھی اور ہم اس کے حال سے باخبر تھے۔ اسی رشد و فہم کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ایسے بت پرستانہ ماحول میں توحید کا پرچم بلند کرنا ممکن ہوا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس دعوت میں حکیمانہ انداز اختیار کرتے ہوئے لوگوں کے اس عقیدہ سے فائدہ اٹھایا کہ انسانی امور کی تدبیر کسی طاقت کے ہاتھ میں ہے اور اسی کو رب تسلیم کر لینا چاہیے۔ اس رب کی تلاش اور تشخیص میں فوراً اپنا مؤقف بیان نہیں فرماتے بلکہ چند قدم ان سادہ لوح بت پرستوں کے ساتھ چلتے ہیں اور انہیں کا ایک بلند مرتبہ رب ایک ستارہ (زہرہ یا مشتری) کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ۔ اس وقتی مؤقف اور فرضی نظریہ سے بت پرستوں کی مذہبی حیثیت اور نظریاتی تعصب کو چھیڑے بغیر ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہیں۔

فَلَمَّاۤ اَفَلَ : جب یہ ستارہ ڈوب جاتا اور نظروں سے غائب ہو جاتا، دوسرے لفظوں میں مزعومہ رب اپنے بندوں کو بے سہارا چھوڑ کر پس پردہ چلا جاتا ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام لوگوں کو اس رب کی بے مہری کی طرف متوجہ کرتے ہیں: قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ﴿﴾ مجھے غائب ہونے والے پسند نہیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس بارے میں لوگوں کا یہ نظریہ تھا کہ جب ستارے طلوع کرتے ہیں تو طاقتور ہوتے ہیں اور جب غروب کرتے ہیں کمزور ہو جاتے ہیں۔ ممکن ہے اسی نظریے کے مطابق فرمایا ہو کہ میں کمزوروں سے محبت نہیں کرتا۔ ایسا رب مجھے پسند نہیں ہے جو کمزوری کی وجہ سے چھپ جاتا ہے۔ کیونکہ رب اور مربوب کے درمیان محبت ہی کا رشتہ ہوتا ہے: وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَنۡدَادًا یُّحِبُّوۡنَہُمۡ کَحُبِّ اللّٰہِ ؕ ۔ (بقرۃ: 165) اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا مد مقابل قرار دیتے ہیں اور ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسے محبت اللہ سے رکھنی چاہیے۔ امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے: ہل الدین الا الحبّ ۔ (الکافی 8: 79)کیا دین محبت کے علاوہ کسی اور چیز کا نام ہے؟۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام براہ راست اس محبت کو نشانہ بناتے ہیں جس پر یہ عقیدہ قائم ہے اور فرماتے ہیں: لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ﴿﴾ میں غائب ہونے والوں سے محبت نہیں کرتا۔

جب چاند طلوع ہوتا ہے تو پھر استدراجی طرز استدلال اختیار فرماتے ہیں کہ ستارہ نہ سہی، چمکتا چاند میرا رب ہے۔ جب چاند بھی اپنے بندوں کو بے سہارا چھوڑ کر ڈوب جاتا ہے اور وہی بے رخی اختیار کرتا ہے تو اس بار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے حقیقی رب کی اس طرح نشاندہی کی: لَئِنۡ لَّمۡ یَہۡدِنِیۡ رَبِّیۡ لَاَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡقَوۡمِ الضَّآلِّیۡنَ﴿﴾ اگر میرا رب میری رہنمائی نہ فرماتا تو میں بھی ضرور گمراہوں میں سے ہو جاتا۔

جب سورج نے طلوع کیا تو وہی طرز استدلال اختیار کیا اور فرمایا یہ تو کافی بڑا ہے۔ یہی میرا رب ہے جب سورج نے بھی بے اعتنائی برتی اور ڈوب گیا، ڈوب جانے اور غائب ہو جانے کے امر میں ستارے، چاند اور سورج سب کو یکساں پایا تو دیکھا ان میں سے کوئی ایک بھی رب بننے کے قابل نہیں ہے، یہاں پر آمدم بر سر مطلب کے طور پر کہا: اے قوم جن چیزوں کو تم اللہ کے شریک بناتے ہو ان سے میں بیزار ہوں۔ اب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان ارباب کو اس مقام پر پہنچایا کہ ان سے اعلان برائت کیا جائے۔

وَ حَآجَّہٗ قَوۡمُہٗ ؕ قَالَ اَتُحَآجُّوۡٓنِّیۡ فِی اللّٰہِ وَ قَدۡ ہَدٰىنِ ؕ وَ لَاۤ اَخَافُ مَا تُشۡرِکُوۡنَ بِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ رَبِّیۡ شَیۡئًا ؕ وَسِعَ رَبِّیۡ کُلَّ شَیۡءٍ عِلۡمًا ؕ اَفَلَا تَتَذَکَّرُوۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰ ۔ اور ابراہیم کی قوم نے ان سے بحث کی تو انہوں نے کہا:کیا تم مجھ سے اس اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہو جس نے مجھے سیدھا راستہ دکھایا ہے؟ اور جن چیزوں کو تم اس کا شریک ٹھہراتے ہو ان سے مجھے کوئی خوف نہیں مگر یہ کہ میرا رب کوئی امر چاہے، میرے رب کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے، کیا تم سوچتے نہیں ہو؟