اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿ۚ۷۹﴾
۷۹۔ میں نے تو اپنا رخ پوری یکسوئی سے اس ذات کی طرف کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔
76۔ 79 جدید ترین تحقیقات اور کھدائیوں سے جو کتبے ملے ہیں ان سے پتہ چلا ہے کہ اس زمانے میں ہر شہر کا دیوتا جدا ہوتا تھا اور ہر دیوتا کسی ستارے، چاند یا سورج سے مربوط سمجھا جاتا تھا۔ اب تک پانچ ہزار خداؤں کے نام ملے ہیں۔
قوم ابراہیم کی ستارہ پرستی کا تصور کچھ اس طرح تھا کہ سورج بادشاہوں کی تدبیر کرنے والا، ان میں شجاعت اور پیشقدمی کی روح پھونکنے والا، شاہوں کے لشکر کو فتح اور ان کے دشمنوں کو شکست دینے والا رب ہے، ستارہ زحل کو بینی کا نام دیتے
تھے، اس کی خاصیت بھی تقریباً یہی تھی۔ ستارہ مشتری کو مرداخ کہتے تھے اور اسے بڑا رب کہتے تھے جو عدل و انصاف کا رب ہے۔ ستارہ مریخ کو انکال کہتے تھے۔ یہ شکار اور جنگوں کا رب ہے۔ ستارہ زہرہ کو عشقار کہتے تھے۔ یہ سعادت و خوشحالی کا رب ہے۔ آثار قدیمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زہرہ سے منسوب بت ایک برہنہ عورت کی شکل میں ہے اور عطارد کو نبو کہتے تھے اور یہ علم و حکمت کا رب ہے۔
ایسے ماحول میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک بیمثال عقلی و فکری صلاحیت کے ساتھ توحید کی دعوت شروع کرتے ہیں ارشاد فرمایا: وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ رُشۡدَہٗ مِنۡ قَبۡلُ وَ کُنَّا بِہٖ عٰلِمِیۡنَ ﴿﴾ ۔ (انبیاء: 51) اور بتحقیق ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے عقل کامل عطا کی تھی اور ہم اس کے حال سے باخبر تھے۔ اسی رشد و فہم کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ایسے بت پرستانہ ماحول میں توحید کا پرچم بلند کرنا ممکن ہوا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس دعوت میں حکیمانہ انداز اختیار کرتے ہوئے لوگوں کے اس عقیدہ سے فائدہ اٹھایا کہ انسانی امور کی تدبیر کسی طاقت کے ہاتھ میں ہے اور اسی کو رب تسلیم کر لینا چاہیے۔ اس رب کی تلاش اور تشخیص میں فوراً اپنا مؤقف بیان نہیں فرماتے بلکہ چند قدم ان سادہ لوح بت پرستوں کے ساتھ چلتے ہیں اور انہیں کا ایک بلند مرتبہ رب ایک ستارہ (زہرہ یا مشتری) کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ۔ اس وقتی مؤقف اور فرضی نظریہ سے بت پرستوں کی مذہبی حیثیت اور نظریاتی تعصب کو چھیڑے بغیر ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہیں۔
فَلَمَّاۤ اَفَلَ : جب یہ ستارہ ڈوب جاتا اور نظروں سے غائب ہو جاتا، دوسرے لفظوں میں مزعومہ رب اپنے بندوں کو بے سہارا چھوڑ کر پس پردہ چلا جاتا ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام لوگوں کو اس رب کی بے مہری کی طرف متوجہ کرتے ہیں: قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ﴿﴾ مجھے غائب ہونے والے پسند نہیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس بارے میں لوگوں کا یہ نظریہ تھا کہ جب ستارے طلوع کرتے ہیں تو طاقتور ہوتے ہیں اور جب غروب کرتے ہیں کمزور ہو جاتے ہیں۔ ممکن ہے اسی نظریے کے مطابق فرمایا ہو کہ میں کمزوروں سے محبت نہیں کرتا۔ ایسا رب مجھے پسند نہیں ہے جو کمزوری کی وجہ سے چھپ جاتا ہے۔ کیونکہ رب اور مربوب کے درمیان محبت ہی کا رشتہ ہوتا ہے: وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَنۡدَادًا یُّحِبُّوۡنَہُمۡ کَحُبِّ اللّٰہِ ؕ ۔ (بقرۃ: 165) اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا مد مقابل قرار دیتے ہیں اور ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسے محبت اللہ سے رکھنی چاہیے۔ امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے: ہل الدین الا الحبّ ۔ (الکافی 8: 79)کیا دین محبت کے علاوہ کسی اور چیز کا نام ہے؟۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام براہ راست اس محبت کو نشانہ بناتے ہیں جس پر یہ عقیدہ قائم ہے اور فرماتے ہیں: لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ﴿﴾ میں غائب ہونے والوں سے محبت نہیں کرتا۔
جب چاند طلوع ہوتا ہے تو پھر استدراجی طرز استدلال اختیار فرماتے ہیں کہ ستارہ نہ سہی، چمکتا چاند میرا رب ہے۔ جب چاند بھی اپنے بندوں کو بے سہارا چھوڑ کر ڈوب جاتا ہے اور وہی بے رخی اختیار کرتا ہے تو اس بار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے حقیقی رب کی اس طرح نشاندہی کی: لَئِنۡ لَّمۡ یَہۡدِنِیۡ رَبِّیۡ لَاَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡقَوۡمِ الضَّآلِّیۡنَ﴿﴾ اگر میرا رب میری رہنمائی نہ فرماتا تو میں بھی ضرور گمراہوں میں سے ہو جاتا۔
جب سورج نے طلوع کیا تو وہی طرز استدلال اختیار کیا اور فرمایا یہ تو کافی بڑا ہے۔ یہی میرا رب ہے جب سورج نے بھی بے اعتنائی برتی اور ڈوب گیا، ڈوب جانے اور غائب ہو جانے کے امر میں ستارے، چاند اور سورج سب کو یکساں پایا تو دیکھا ان میں سے کوئی ایک بھی رب بننے کے قابل نہیں ہے، یہاں پر آمدم بر سر مطلب کے طور پر کہا: اے قوم جن چیزوں کو تم اللہ کے شریک بناتے ہو ان سے میں بیزار ہوں۔ اب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان ارباب کو اس مقام پر پہنچایا کہ ان سے اعلان برائت کیا جائے۔