وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصۡنَامًا اٰلِہَۃً ۚ اِنِّیۡۤ اَرٰىکَ وَ قَوۡمَکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۷۴﴾

۷۴۔اور جب ابراہیم نے اپنے باپ (چچا) آزر سے کہا: کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو؟ میں تمہیں اور تمہاری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھ رہا ہوں۔

74۔ آزر کی وجہ تسمیہ کے بارے میں یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ آزر نمرود کے بتوں کے خزانے کا انچارج تھا اور ماہرین کے مطابق فینقی (Phoenic) زبان میں بعل بت کے مجاور کو آزر بعل کہتے تھے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: آذر نمرود کا وزیر اور دار الاصنام (بتکدہ) کا انچارج تھا (نور الثقلین1: 737)۔

باپ کے لیے عربی میں دو الفاظ استعمال ہوتے ہیں: ایک اب جو حقیقی باپ، چچا اور دادا کے لیے استعمال ہوتا ہے اور دوسرا والد جو صرف حقیقی باپ کے لیے استعمال ہوتا ہے، جس طرح ابن حقیقی اور غیر حقیقی فرزند سب کے لیے اور ولد صرف حقیقی فرزند کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ آیت میں اب کا لفظ استعمال ہوا ہے جو حقیقی باپ بھی ہو سکتا ہے اور چچا بھی۔ جبکہ سورﮤ ابراہیم کی آیت 41 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آخری عمر کی دعا کا ذکر ہے جس میں آپ نے اپنے والدین کے لیے دعا کی ہے: رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ ۔ (ابراہیم:41) یہاں والد کا لفظ استعمال ہوا جو صرف حقیقی باپ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس سے واضح طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حقیقی والدین کا مؤمن ہونا اور آزر کا حقیقی باپ نہ ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔