قَالَ اٰمَنۡتُمۡ لَہٗ قَبۡلَ اَنۡ اٰذَنَ لَکُمۡ ؕ اِنَّہٗ لَکَبِیۡرُکُمُ الَّذِیۡ عَلَّمَکُمُ السِّحۡرَ ۚ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَیۡدِیَکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ وَّ لَاُصَلِّبَنَّکُمۡ فِیۡ جُذُوۡعِ النَّخۡلِ ۫ وَ لَتَعۡلَمُنَّ اَیُّنَاۤ اَشَدُّ عَذَابًا وَّ اَبۡقٰی﴿۷۱﴾

۷۱۔ فرعون بولا: تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں، یہ یقینا تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا اب میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمت سے کٹوا دوں گا اور کھجور کے تنوں پر تمہیں یقینا سولی چڑھوا دوں گا پھر تمہیں ضرور معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے سخت اور دیرپا عذاب دینے والا کون ہے

71۔ ”میری اجازت سے پہلے“ کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ اجازت کے بعد ایمان لانے میں کوئی حرج نہ تھا۔ ممکن ہے مطلب یہ ہو کہ میرا مؤقف سننے سے پہلے۔ چنانچہ وہ اپنا مؤقف بتا دیتا ہے کہ یہ تمہاری اور موسیٰ علیہ السلام کی ملی بھگت ہے بلکہ موسیٰ تمہارا استاد ہے جس سے تم نے جادو سیکھ لیا ہے۔ یہ ایک نعرہ تھا جس سے رائے عامہ کو اپنے خلاف اور موسیٰ علیہ السلام کے حق میں جانے سے روکنا چاہتا تھا، ورنہ سب ہی کو معلوم تھا کہ یہ جادوگر موسیٰ علیہ السلام کے شاگرد نہیں ہیں۔

قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡثِرَکَ عَلٰی مَا جَآءَنَا مِنَ الۡبَیِّنٰتِ وَ الَّذِیۡ فَطَرَنَا فَاقۡضِ مَاۤ اَنۡتَ قَاضٍ ؕ اِنَّمَا تَقۡضِیۡ ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ﴿ؕ۷۲﴾

۷۲۔ (جادو گروں نے) کہا: جو دلائل ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں ان پر اور جس نے ہمیں خلق کیا ہے اس پر ہم تجھے مقدم نہیں رکھیں گے لہٰذا اب تو نے جو فیصلہ کرنا ہے کر ڈال، تو بس اس دنیا کی زندگی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔

72۔ جن کے قلب و وجدان پر مفادات کے پردے پڑے ہوئے تھے اور فرعون کی طاغوتی طاقت کی قسم کھا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو زیر کرنے کی باتیں کرتے تھے، آج حقائق سے پردہ اٹھ جانے کے بعد یہی لوگ فرعون کی طاغوتیت کو اعتنا میں نہیں لاتے اور نہایت دلیری سے کہ رہے ہیں: جو فیصلہ کرنا ہے کر ڈال۔

ایمان و یقین کی منزل پر آنے کے بعد دنیا کی زندگی حقیر نظر آنے لگتی ہے اور حقائق کے وسیع صفحات کھل جاتے ہیں۔

اِنَّـاۤ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغۡفِرَ لَنَا خَطٰیٰنَا وَ مَاۤ اَکۡرَہۡتَنَا عَلَیۡہِ مِنَ السِّحۡرِ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی﴿۷۳﴾ ۞ؓ

۷۳۔ ہم اپنے رب پر ایمان لائے ہیں تاکہ وہ ہمارے گناہوں کو معاف کر دے اور جس جادوگری پر تم نے ہمیں مجبور کیا تھا اسے بھی معاف کر دے اور اللہ سب سے بہتر اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔

اِنَّہٗ مَنۡ یَّاۡتِ رَبَّہٗ مُجۡرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَہَنَّمَ ؕ لَا یَمُوۡتُ فِیۡہَا وَ لَا یَحۡیٰی﴿۷۴﴾

۷۴۔ بے شک جو مجرم بن کر اپنے رب کے پاس آئے گا اس کے لیے یقینا جہنم ہے جس میں وہ نہ مرے گا اور نہ جیے گا۔

وَ مَنۡ یَّاۡتِہٖ مُؤۡمِنًا قَدۡ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓئِکَ لَہُمُ الدَّرَجٰتُ الۡعُلٰی ﴿ۙ۷۵﴾

۷۵۔ اور جو مومن بن کر اس کے پاس حاضر ہو گا جب کہ وہ نیک اعمال بھی بجا لا چکا ہو تو ایسے لوگوں کے لیے بلند درجات ہیں۔

جَنّٰتُ عَدۡنٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنۡ تَزَکّٰی﴿٪۷۶﴾

۷۶۔دائمی باغات جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی پاکیزہ رہنے والے کی جزا ہے۔

73 تا 76۔ ایمان و یقین کی منزل پر فائز ہونے کے بعد جن الٰہی قدروں کا ان ساحروں نے اعلان کیا ہے وہ نہایت قابل توجہ ہیں:

1۔ ایمان کے دائرے میں داخل ہونے کے بعد کفر کی حالت کے گزشتہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ 2۔ فرعون نے ان ساحروں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے کے لیے مجبور کیا تھا، ممکن ہے یہ جبر اس وقت عمل میں آیا ہو جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا موعظہ سننے کے بعد فرعونیوں میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔ 3۔ یقین کی منزل پر فائز ہونے پر ان کے لیے واضح ہو گیا کہ فرعون کے مقابلے میں جو اللہ کے پاس ہے وہ ابدی اور دائمی ہے۔ 4۔ جو مجرم بن کر اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچے گا اسے زندگی کی لذت ملے گی، نہ موت کی راحت۔ 5۔ ایمان کے ساتھ عمل صالح ہو تو نجات ہے۔ 6۔ جنت عدن کی زندگی دائمی اور ابدی ہے۔

وَ لَقَدۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی ۬ۙ اَنۡ اَسۡرِ بِعِبَادِیۡ فَاضۡرِبۡ لَہُمۡ طَرِیۡقًا فِی الۡبَحۡرِ یَبَسًا ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَکًا وَّ لَا تَخۡشٰی﴿۷۷﴾

۷۷۔ اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں کو لے کر رات کے وقت چل پڑیں پھر ان کے لیے سمندر میں خشک راستہ بنا دیں، آپ کو (فرعون کی طرف سے) نہ پکڑے جانے کا خطرہ ہو گا اور نہ ہی (غرق کا) خوف ۔

77۔ سمندر میں خشک راستہ بنا لینے میں ان لوگوں کا جواب موجود ہے جو اس معجزے کی توجیہ ہمارے محسوس اور مانوس علل و اسباب کی روشنی میں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہوا کے طوفان یا مد و جزر سے راستہ بن گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہوا سے یا مد و جزر سے راستہ بننے کی صورت میں نہ راستہ خشک ہوتا ہے، نہ ہی پانی دونوں طرف بڑے ٹیلوں کی طرح ہوتا ہے اور نہ ہی عصا مارنے سے راستہ بننے کا کوئی تعلق ہو سکتا ہے۔

فَاَتۡبَعَہُمۡ فِرۡعَوۡنُ بِجُنُوۡدِہٖ فَغَشِیَہُمۡ مِّنَ الۡیَمِّ مَا غَشِیَہُمۡ ﴿ؕ۷۸﴾

۷۸۔ پھر فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا تعاقب کیا اور پھر سمندر ان پر ایسا چھایا کہ جس طرح چھا جانا چاہیے تھا۔

78۔ جس دریا کو بنی اسرائیل نے فلسطین جانے کے لیے عبور کیا اور فرعون جس میں غرق ہوا وہ دریائے نیل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ دریائے نیل جہاں سے اسرائیلیوں نے سفر شروع کیا، وہاں سے مغرب کی طرف واقع تھا، جبکہ بنی اسرائیل مشرق میں فلسطین کی طرف سفر کر رہے تھے، بلکہ اس دریا سے مراد بحر احمر ہی ہو سکتا ہے جسے عبور کر کے وہ صحرائے سینا پہنچ گئے۔

وَ اَضَلَّ فِرۡعَوۡنُ قَوۡمَہٗ وَ مَا ہَدٰی﴿۷۹﴾

۷۹۔ اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کر دیا اور ہدایت کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔

یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ قَدۡ اَنۡجَیۡنٰکُمۡ مِّنۡ عَدُوِّکُمۡ وَ وٰعَدۡنٰکُمۡ جَانِبَ الطُّوۡرِ الۡاَیۡمَنَ وَ نَزَّلۡنَا عَلَیۡکُمُ الۡمَنَّ وَ السَّلۡوٰی﴿۸۰﴾

۸۰۔ اے بنی اسرائیل! تمہارے دشمن سے یقینا ہم نے تمہیں نجات دی اور تمہیں طور کی دائیں جانب وعدہ دیا اور ہم نے تم پر من و سلویٰ نازل کیا۔