جَنّٰتُ عَدۡنٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنۡ تَزَکّٰی﴿٪۷۶﴾

۷۶۔دائمی باغات جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی پاکیزہ رہنے والے کی جزا ہے۔

73 تا 76۔ ایمان و یقین کی منزل پر فائز ہونے کے بعد جن الٰہی قدروں کا ان ساحروں نے اعلان کیا ہے وہ نہایت قابل توجہ ہیں:

1۔ ایمان کے دائرے میں داخل ہونے کے بعد کفر کی حالت کے گزشتہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ 2۔ فرعون نے ان ساحروں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے کے لیے مجبور کیا تھا، ممکن ہے یہ جبر اس وقت عمل میں آیا ہو جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا موعظہ سننے کے بعد فرعونیوں میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔ 3۔ یقین کی منزل پر فائز ہونے پر ان کے لیے واضح ہو گیا کہ فرعون کے مقابلے میں جو اللہ کے پاس ہے وہ ابدی اور دائمی ہے۔ 4۔ جو مجرم بن کر اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچے گا اسے زندگی کی لذت ملے گی، نہ موت کی راحت۔ 5۔ ایمان کے ساتھ عمل صالح ہو تو نجات ہے۔ 6۔ جنت عدن کی زندگی دائمی اور ابدی ہے۔