وَ امۡرَاَتُہٗ قَآئِمَۃٌ فَضَحِکَتۡ فَبَشَّرۡنٰہَا بِاِسۡحٰقَ ۙ وَ مِنۡ وَّرَآءِ اِسۡحٰقَ یَعۡقُوۡبَ﴿۷۱﴾

۷۱۔ اور ابراہیم کی زوجہ کھڑی تھیں پس وہ ہنس پڑیں تو ہم نے انہیں اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی بشارت دی۔

قَالَتۡ یٰوَیۡلَتٰۤیءَ اَلِدُ وَ اَنَا عَجُوۡزٌ وَّ ہٰذَا بَعۡلِیۡ شَیۡخًا ؕ اِنَّ ہٰذَا لَشَیۡءٌ عَجِیۡبٌ﴿۷۲﴾

۷۲۔ وہ بولی: ہائے میری شامت! کیا میرے ہاں بچہ ہو گا جبکہ میں بڑھیا ہوں اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہیں؟ یقینا یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔

قَالُوۡۤا اَتَعۡجَبِیۡنَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ رَحۡمَتُ اللّٰہِ وَ بَرَکٰتُہٗ عَلَیۡکُمۡ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ ؕ اِنَّہٗ حَمِیۡدٌ مَّجِیۡدٌ﴿۷۳﴾

۷۳۔ انہوں نے کہا:کیا تم اللہ کے فیصلے پر تعجب کرتی ہو؟ تم اہل بیت پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہیں، یقینا اللہ قابل ستائش، بڑی شان والا ہے۔

71 تا 73 مجمع البیان کا موقف یہ ہے کہ ضحک حیض کے معنوں میں ہے۔ جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور مہمانوں میں گفتگو ہو رہی تھی، اس وقت حضرت سارہ کھڑی گفتگو سن رہی تھیں۔ اس وقت حضرت سارہ کو عالم پیری میں ماہواری آنا شروع ہو گئی اور فرشتوں نے حضرت سارہ کو خوشخبری سنائی کہ آپ کے ہاں بیٹا ہونے والا ہے اور ساتھ ہی پوتے کی خوشخبری بھی دی۔ اس پر حضرت سارہ کو حیرت ہوئی اور اظہار تعجب کیا، کیونکہ بنابر روایت بائیبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر 100 سال اور حضرت سارہ کی عمر 90 برس تھی۔ فرشتوں نے سارہ کے تعجب و حیرانگی کے جواب میں کہا: اللہ کے فیصلے پر تعجب کرتی ہو جبکہ اس گھرانے پر تو اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوتی رہی ہیں۔ حضرت سارہ ان پاک خواتین میں سے ایک ہیں جو فرشتوں سے ہمکلام ہوئی ہیں۔ فرشتوں نے یہ بشارت حضرت سارہ کو اس لیے دی ہو گی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاں حضرت ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام جیسے جلیل القدر فرزند موجود تھے۔

فَلَمَّا ذَہَبَ عَنۡ اِبۡرٰہِیۡمَ الرَّوۡعُ وَ جَآءَتۡہُ الۡبُشۡرٰی یُجَادِلُنَا فِیۡ قَوۡمِ لُوۡطٍ ﴿ؕ۷۴﴾

۷۴۔پھر جب ابراہیم کے دل سے خوف نکل گیا اور انہیں خوشخبری بھی مل گئی تو وہ قوم لوط کے بارے میں ہم سے بحث کرنے لگے۔

اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ لَحَلِیۡمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیۡبٌ﴿۷۵﴾

۷۵۔ بے شک ابراہیم بردبار، نرم دل، اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔

74۔75 قوم لوط سے عذاب ٹالنے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اصرار و تکرار ایک طرف تو ان کی اللہ کے ساتھ گہری محبت و ناز کو ظاہر کرتا ہے، دوسری طرف ان کی نرم دلی اور حلم و بردباری کی عظمت کا غماز ہے۔

یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ اَعۡرِضۡ عَنۡ ہٰذَا ۚ اِنَّہٗ قَدۡ جَآءَ اَمۡرُ رَبِّکَ ۚ وَ اِنَّہُمۡ اٰتِیۡہِمۡ عَذَابٌ غَیۡرُ مَرۡدُوۡدٍ﴿۷۶﴾

۷۶۔ (فرشتوں نے ان سے کہا) اے ابراہیم! اس بات کو چھوڑ دیں، بیشک آپ کے رب کا فیصلہ آ چکا ہے اور ان پر ایک ایسا عذاب آنے والا ہے جسے ٹالا نہیں جا سکتا۔

وَ لَمَّا جَآءَتۡ رُسُلُنَا لُوۡطًا سِیۡٓءَ بِہِمۡ وَ ضَاقَ بِہِمۡ ذَرۡعًا وَّ قَالَ ہٰذَا یَوۡمٌ عَصِیۡبٌ﴿۷۷﴾

۷۷۔ اور جب ہمارے فرستادے لوط کے پاس آئے تو لوط ان سے رنجیدہ ہوئے اور ان کے باعث دل تنگ ہوئے اور کہنے لگے: یہ بڑا سنگین دن ہے۔

وَ جَآءَہٗ قَوۡمُہٗ یُہۡرَعُوۡنَ اِلَیۡہِ ؕ وَ مِنۡ قَبۡلُ کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ السَّیِّاٰتِ ؕ قَالَ یٰقَوۡمِ ہٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیۡ ہُنَّ اَطۡہَرُ لَکُمۡ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ لَا تُخۡزُوۡنِ فِیۡ ضَیۡفِیۡ ؕ اَلَـیۡسَ مِنۡکُمۡ رَجُلٌ رَّشِیۡدٌ﴿۷۸﴾

۷۸۔ اور لوط کی قوم بے تحاشا دوڑتی ہوئی ان کی طرف آئی اور یہ لوگ پہلے سے بدکاری کا ارتکاب کرتے تھے، لوط نے کہا: اے میری قوم!یہ میری بیٹیاں تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ ہیں پس تم اللہ کا خوف کرو اور میرے مہمانوں کے سامنے مجھے رسوا نہ کرو، کیا تم میں کوئی ہوشمند آدمی نہیں ہے؟

78۔ حضرت لوط علیہ السلام کی بدکار قوم نے جب ان خوش شکل لڑکوں کو دیکھا تو حضرت لوط علیہ السلام کے گھر کی طرف دوڑ پڑے۔ شاید فرشتے خوش شکل لڑکوں کی صورت میں اسی لیے آئے ہوں کہ ان کی بدکاری ثابت ہو جائے۔

حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا: جنسی خواہشات کو پورا کرنا ہے تو اس کے لیے شائستہ اور فطری راستہ اختیار کرو اور میری بیٹیاں تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ ہیں۔ پاکیزگی یعنی نکاح۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کافروں کے ساتھ نکاح کیسے ہو سکتا ہے؟ جواب دیا گیا ہے: ممکن ہے شریعت حضرت لوط علیہ السلام میں کافر سے نکاح جائز ہو نیز ممکن ہے ”میری بیٹیاں“ سے مراد قوم کی بیٹیاں ہوں۔

اس واقعے سے مہمان کی عزت اور اس کے وقار کے تحفظ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جس کے لیے حضرت لوط علیہ السلام ہر قربانی دینے کے لیے آمادہ نظر آتے ہیں۔

قَالُوۡا لَقَدۡ عَلِمۡتَ مَا لَنَا فِیۡ بَنٰتِکَ مِنۡ حَقٍّ ۚ وَ اِنَّکَ لَتَعۡلَمُ مَا نُرِیۡدُ﴿۷۹﴾

۷۹۔ وہ بولے: تمہیں خوب علم ہے ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کوئی غرض نہیں ہے اور یقینا تمہیں معلوم ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔

قَالَ لَوۡ اَنَّ لِیۡ بِکُمۡ قُوَّۃً اَوۡ اٰوِیۡۤ اِلٰی رُکۡنٍ شَدِیۡدٍ﴿۸۰﴾

۸۰۔ لوط نے کہا: اے کاش! مجھ میں (تمہیں روکنے کی) طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لے سکتا۔

70۔80 وہ حضرت لوط علیہ السلام ہی کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے کہ یہ مسئلہ تو خود آپ علیہ السلام کے علم میں ہے کہ آپ کی بیٹیوں میں ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ان کے قومی رواج کے مطابق لوگوں کی عورتوں پر بزور بازو قبضہ کرنا درست نہیں تھا، مگر لڑکوں سے اپنی ہوس پوری کرنے میں کوئی حرج نہ تھا۔ (المیزان 9: 340) اور ممکن ہے ان کی ساری رغبت اس گندگی کی طرف ہو گئی ہو اور فطری راہوں کی طرف وہ سرے سے راغب ہی نہ ہوتے ہوں۔

جب حضرت لوط علیہ السلام نے اس عار و ننگ سے بچنے کے تمام ذرائع استعمال کیے۔ وعظ و نصیحت تو شروع سے کرتے رہے، فطری راہوں سے خواہشات پوری کرنے کی تجویز بھی سامنے رکھ دی اور قوم کے کسی ہوشمند آدمی کی بھی تلاش کی جو ان کی مدد کو پہنچے، جب ان سب چیزوں سے مایوس ہوئے تو اس تمنا کا اظہار فرمایا کہ کاش کوئی قوم و قبیلہ ہوتا جو میرا دفاع کرتا یا کوئی جائے پناہ ہوتی جس کا سہارا لیتا۔