قَالَ لَوۡ اَنَّ لِیۡ بِکُمۡ قُوَّۃً اَوۡ اٰوِیۡۤ اِلٰی رُکۡنٍ شَدِیۡدٍ﴿۸۰﴾

۸۰۔ لوط نے کہا: اے کاش! مجھ میں (تمہیں روکنے کی) طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لے سکتا۔

70۔80 وہ حضرت لوط علیہ السلام ہی کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے کہ یہ مسئلہ تو خود آپ علیہ السلام کے علم میں ہے کہ آپ کی بیٹیوں میں ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ان کے قومی رواج کے مطابق لوگوں کی عورتوں پر بزور بازو قبضہ کرنا درست نہیں تھا، مگر لڑکوں سے اپنی ہوس پوری کرنے میں کوئی حرج نہ تھا۔ (المیزان 9: 340) اور ممکن ہے ان کی ساری رغبت اس گندگی کی طرف ہو گئی ہو اور فطری راہوں کی طرف وہ سرے سے راغب ہی نہ ہوتے ہوں۔

جب حضرت لوط علیہ السلام نے اس عار و ننگ سے بچنے کے تمام ذرائع استعمال کیے۔ وعظ و نصیحت تو شروع سے کرتے رہے، فطری راہوں سے خواہشات پوری کرنے کی تجویز بھی سامنے رکھ دی اور قوم کے کسی ہوشمند آدمی کی بھی تلاش کی جو ان کی مدد کو پہنچے، جب ان سب چیزوں سے مایوس ہوئے تو اس تمنا کا اظہار فرمایا کہ کاش کوئی قوم و قبیلہ ہوتا جو میرا دفاع کرتا یا کوئی جائے پناہ ہوتی جس کا سہارا لیتا۔