قَالُوۡا یٰلُوۡطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنۡ یَّصِلُوۡۤا اِلَیۡکَ فَاَسۡرِ بِاَہۡلِکَ بِقِطۡعٍ مِّنَ الَّیۡلِ وَ لَا یَلۡتَفِتۡ مِنۡکُمۡ اَحَدٌ اِلَّا امۡرَاَتَکَ ؕ اِنَّہٗ مُصِیۡبُہَا مَاۤ اَصَابَہُمۡ ؕ اِنَّ مَوۡعِدَہُمُ الصُّبۡحُ ؕ اَلَـیۡسَ الصُّبۡحُ بِقَرِیۡبٍ ﴿۸۱﴾

۸۱۔ فرشتوں نے کہا: اے لوط !ہم آپ کے رب کے فرستادے ہیں یہ لوگ آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے، پس آپ رات کے کسی حصے میں اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جائیں اور آپ میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے سوائے آپ کی بیوی کے، بیشک جو عذاب دوسروں پر پڑنے والا ہے وہی اس (بیوی) پر بھی پڑے گا، یقینا ان کے وعدہ عذاب کا وقت صبح ہے، کیا صبح کا وقت قریب نہیں ؟

81۔ حضرت لوط علیہ السلام کے اضطراب و پریشانی کو دیکھ کر فرشتوں نے اصل راز سے پردہ اٹھایا اور کہا: ہم تو آپ علیہ السلام کے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ یہ لوگ آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ چنانچہ وہ سب اندھے ہو گئے۔

حضرت لوط علیہ السلام کو حکم ہوا کہ خاندان کے تمام افراد کو لے کر نکل جائیں۔ البتہ ان کی بیوی چونکہ خیانت کار تھی، اس لیے کہا گیا کہ وہ ہلاکت میں جائے گی۔ ممکن ہے حضرت لوط علیہ السلام نے قوم کی بداعمالیوں اور فحش کاریوں کی بنا پر جلدی عذاب کی درخواست کی تو فرمایا گیا کہ صبح کے وقت عذاب آنے ہی والا ہے۔

فَلَمَّا جَآءَ اَمۡرُنَا جَعَلۡنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہَا حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ۬ۙ مَّنۡضُوۡدٍ ﴿ۙ۸۲﴾

۸۲۔ پس جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اس (بستی) کو تہ و بالا کر دیا اور اس پر پختہ مٹی کے پتھروں کی لگاتار بارش برسائی۔

مُّسَوَّمَۃً عِنۡدَ رَبِّکَ ؕ وَ مَا ہِیَ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ بِبَعِیۡدٍ﴿٪۸۳﴾ ۞ؒ

۸۳۔ جن پر آپ کے رب کے ہاں (سے) نشانی لگی ہوئی تھی اور یہ (عذاب) ظالموں سے (کوئی) دور نہیں۔

82۔83 ممکن ہے یہ عذاب آتش فشانی کے دھماکے کے ساتھ آیا ہو جس میں زلزلہ بھی ہوتا ہے اور زمین کو الٹ کر تہ و بالا بھی کر دیا جاتا ہے اور آتش فشانی کی وجہ سے اوپر سے پتھروں کی بارش بھی ہو سکتی ہے اور ہر پتھر پر نشانی کی کیا تفصیل ہے، آیت اس سلسلے میں خاموش ہے اور ظن و تخمین کی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کہتے ہیں آج تک بحر لوط کے جنوب اور مشرق کے علاقے میں اس انفجار کے آثار ہر طرف نمایاں ہیں۔

وَ اِلٰی مَدۡیَنَ اَخَاہُمۡ شُعَیۡبًا ؕ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ وَ لَا تَنۡقُصُوا الۡمِکۡیَالَ وَ الۡمِیۡزَانَ اِنِّیۡۤ اَرٰىکُمۡ بِخَیۡرٍ وَّ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ مُّحِیۡطٍ ﴿۸۴﴾

۸۴۔ اور مدین کی طرف ہم نے ان کی برادری کے فرد شعیب کو بھیجا، انہوں نے کہا : اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے اور ناپ اور تول میں کمی نہ کیا کرو، میں تمہیں آسودگی میں دیکھ رہا ہوں اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ دن نہ آ جائے جس کا عذاب تمہیں گھیر لے۔

وَ یٰقَوۡمِ اَوۡفُوا الۡمِکۡیَالَ وَ الۡمِیۡزَانَ بِالۡقِسۡطِ وَ لَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡیَآءَہُمۡ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ﴿۸۵﴾

۸۵۔اور اے میری قوم! انصاف کے ساتھ پورا ناپا اور تولا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور زمین میں فساد کرتے نہ پھرو۔

بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ۬ۚ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیۡکُمۡ بِحَفِیۡظٍ﴿۸۶﴾

۸۶۔ اللہ کی طرف سے باقی ماندہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو اور میں تم پر نگہبان تو نہیں ہوں۔

86۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو جہاں الٰہی اقدار سے روشناس کرانے کی کوشش کی وہاں ان کو نا جائز ذرائع سے کمانے اور معاشرے میں معاشی بگاڑ پیدا کرنے سے روکا۔ آپ نے انہیں جائز منافع پر اکتفا کرنے کی نصیحت کی۔ اس آیت میں عادلانہ معاملات کے ذریعے حاصل شدہ جائز منافع کو بَقِیَّتُ اللّٰہِ سے تعبیر کرنا یہ بتاتا ہے کہ کسی مومن تاجر کے لیے جائز ذرائع سے حاصل ہونے والا منافع اللہ کی عنایت اور اس کی طرف سے بقا کا ضامن ہے۔

قَالُوۡا یٰشُعَیۡبُ اَصَلٰوتُکَ تَاۡمُرُکَ اَنۡ نَّتۡرُکَ مَا یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوۡ اَنۡ نَّفۡعَلَ فِیۡۤ اَمۡوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُاؕ اِنَّکَ لَاَنۡتَ الۡحَلِیۡمُ الرَّشِیۡدُ ﴿۸۷﴾

۸۷۔ انہوں نے کہا: اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم انہیں چھوڑ دیں جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں یا ہم اپنے اموال میں اپنی مرضی سے تصرف کرنا بھی چھوڑ دیں؟ صرف تو ہی بڑا بردبار عقلمند آدمی ہے؟

87۔ وہ بطور طنز کہتے تھے: کیا تمہاری نماز کا یہی تقاضا ہے کہ ہم اپنے معبودوں کی پوجا ترک کر دیں؟ وہ حضرت شعیب علیہ السلام کے دین اور ان کی نماز کو طنز کا نشانہ بناتے تھے کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ اس نماز کے اثرات عبادت و معاملات پر یکساں طور پر مترتب ہو رہے ہیں۔ اس نماز میں توحید پرستی ہے جس میں بت پرستی اور شرک کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس نماز کے اثرات مالی معاملات پر بھی مترتب ہو رہے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دین و مذہب صرف عبادتی رسوم کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تمدن معاشرت سیاست اور معاشی نظام پر مشتمل ایک جامع نظام کا نام ہے۔ قدیم جاہلیت کا بھی یہی نظریہ تھا جو آج کل کے روشن خیالوں کا ہے کہ دین کو انسانی زندگی میں مداخلت کا حق نہیں ہے۔

چنانچہ قدیم جاہلیت کو اس بات پرسخت اعتراض تھا کہ دین و مذہب، اقتصادی امور میں مداخلت کرے اور اپنے اموال میں ہر قسم کے تصرفات کی پوری آزادی نہ ہو۔ اس طرح کل کی غیر منظم جاہلیت اور آج کی منظم جاہلیت میں فکری یکسانیت پائی جاتی ہے۔

قَالَ یٰقَوۡمِ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ کُنۡتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّیۡ وَ رَزَقَنِیۡ مِنۡہُ رِزۡقًا حَسَنًا ؕ وَ مَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اُخَالِفَکُمۡ اِلٰی مَاۤ اَنۡہٰکُمۡ عَنۡہُ ؕ اِنۡ اُرِیۡدُ اِلَّا الۡاِصۡلَاحَ مَا اسۡتَطَعۡتُ ؕ وَ مَا تَوۡفِیۡقِیۡۤ اِلَّا بِاللّٰہِ ؕعَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ اِلَیۡہِ اُنِیۡبُ﴿۸۸﴾

۸۸۔ شعیب نے کہا : اے میری قوم! مجھے بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل کے ساتھ ہوں اور اس نے مجھے اپنے ہاں سے بہترین رزق (نبوت) سے نوازا ہے، میں ایسا تو نہیں چاہتا کہ جس امر سے میں تمہیں منع کروں خود اس کو کرنے لگوں میں تو حسب استطاعت فقط اصلاح کرنا چاہتا ہوں اور مجھے صرف اللہ ہی سے توفیق ملتی ہے، اسی پر میرا توکل ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔

88۔ حق کے داعی کی سچائی پر بہترین دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ دوسروں سے کہتا ہے اسی پر خود بھی عمل کرتا ہے اور جن قدروں کی طرف وہ دوسروں کو بلاتا ہے وہ قدریں خود اس کے لیے سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہیں۔ لہٰذا داعی الی الحق اور مصلح ایسا نہیں کرتا کہ دوسروں کو حرام مال کھانے سے منع کرے اور خود مختلف توجیہات کر کے حرام کھائے۔

حضرت شعیب علیہ السلام فرماتے ہیں:میں استحصالی نہیں ہوں، میں مصلح ہوں۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ ان اصلاحی اقدار پر خود سب سے زیادہ کاربند ہوں اور اس دعوت و عمل کے لیے اللہ کی توفیق کا محتاج ہوں۔

وَ یٰقَوۡمِ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شِقَاقِیۡۤ اَنۡ یُّصِیۡبَکُمۡ مِّثۡلُ مَاۤ اَصَابَ قَوۡمَ نُوۡحٍ اَوۡ قَوۡمَ ہُوۡدٍ اَوۡ قَوۡمَ صٰلِحٍ ؕ وَ مَا قَوۡمُ لُوۡطٍ مِّنۡکُمۡ بِبَعِیۡدٍ﴿۸۹﴾

۸۹۔ اور اے میری قوم! میری مخالفت کہیں اس بات کا موجب نہ بنے کہ تم پر بھی وہی عذاب آ جائے جو قوم نوح یا قوم ہود یا صالح کی قوم پر آیا تھا اور لوط کی قوم (کا زمانہ) تو تم سے دور بھی نہیں ہے۔

89۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم بلحاظ زمانہ بھی قوم لوط علیہ السلام سے قریب تھی اور از لحاظ مکان بھی قریب تھی۔ چنانچہ قوم لوط علیہ السلام کی سرزمین سدوم سے دور نہ تھی جو بحر مردار جسے بحر لوط بھی کہتے ہیں کے کنارے پرآباد تھی۔

وَ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ رَحِیۡمٌ وَّدُوۡدٌ﴿۹۰﴾

۹۰۔ اور تم لوگ اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر اس کے آگے توبہ کرو، میرا رب یقینا بڑا رحم کرنے والا، محبت کرنے والا ہے۔