قَالَ لَہُمۡ مُّوۡسٰی وَیۡلَکُمۡ لَا تَفۡتَرُوۡا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا فَیُسۡحِتَکُمۡ بِعَذَابٍ ۚ وَ قَدۡ خَابَ مَنِ افۡتَرٰی﴿۶۱﴾

۶۱۔ موسیٰ نے ان سے کہا: تم پر تباہی ہو!تم اللہ پر جھوٹ بہتان نہ باندھو وگرنہ اللہ تمہیں ایک عذاب سے نابود کرے گا اور جس نے بھی بہتان باندھا وہ نامراد رہا۔

61۔ جب وہ پوری قوت کے ساتھ میدان میں اتر آئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو نصیحت کی کہ اللہ پر بہتان مت باندھو، اللہ کے معجزے کو جادو مت کہو، اللہ کی دعوت کی غلط تشریح نہ کرو اور یہ کہ اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو کائنات کا مدبر نہ مانو۔ اس افتراء اور بہتان کا نتیجہ تمہاری ہلاکت ہو گا اور تمہاری ساری امیدیں خاک میں مل جائیں گی۔

فَتَنَازَعُوۡۤا اَمۡرَہُمۡ بَیۡنَہُمۡ وَ اَسَرُّوا النَّجۡوٰی ﴿۶۲﴾

۶۲۔ پھر انہوں نے اپنے معاملے میں آپس میں اختلاف کیا اور (باہمی) مشورے کو خفیہ رکھا ۔

قَالُوۡۤا اِنۡ ہٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ یُرِیۡدٰنِ اَنۡ یُّخۡرِجٰکُمۡ مِّنۡ اَرۡضِکُمۡ بِسِحۡرِہِمَا وَ یَذۡہَبَا بِطَرِیۡقَتِکُمُ الۡمُثۡلٰی﴿۶۳﴾

۶۳۔ وہ کہنے لگے: یہ دونوں تو بس جادوگر ہیں، دونوں چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری اس سر زمین سے نکال باہر کریں اور دونوں تمہارے اس مثالی مذہب کا خاتمہ کر دیں۔

62۔63 حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مواعظ کے یا ان کے للکارنے کے نتیجے میں فرعونیوں کے درمیان جھگڑا شروع ہو گیا کہ موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کیا جائے یا نہیں۔ ان لوگوں نے آپس کے مشورے کو چھپا کر ایسے نعرے بنا لیے جن سے وہ لوگوں کے جذبات ابھارنا چاہتے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام حکومت و اقتدار پر قابض ہونا، تمہیں اس ملک سے بے دخل کرنا اور تمہارے مثالی طور و طریقے کا خاتمہ چاہتے ہیں، لہذا تم اپنی تدبیر کو مزید مستحکم کرو،کیونکہ آج فیصلہ کن دن ہے۔

فَاَجۡمِعُوۡا کَیۡدَکُمۡ ثُمَّ ائۡتُوۡا صَفًّا ۚ وَ قَدۡ اَفۡلَحَ الۡیَوۡمَ مَنِ اسۡتَعۡلٰی﴿۶۴﴾

۶۴۔ لہٰذا اپنی ساری تدبیریں یکجا کرو پھر قطار باندھ کر میدان میں آؤ اور آج جو جیت جائے گا وہی فلاح پائے گا۔

64۔ سیاق کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مقابلے کے موضوع پر اختلاف تھا اور مقابلے کے لیے ساحروں ہی کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ لہذا امکان یہی ہے کہ ساحروں میں یا ساحروں اور درباریوں میں اختلاف تھا۔

وَ قَدۡ اَفۡلَحَ الۡیَوۡمَ مَنِ اسۡتَعۡلٰی : فرعون اس مقابلے کو فیصلہ کن قرار دے رہا ہے کہ جو آج جیت جائے گا، کامیابی اسی کا مقدر ہے۔

قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِمَّاۤ اَنۡ تُلۡقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ نَّکُوۡنَ اَوَّلَ مَنۡ اَلۡقٰی﴿۶۵﴾

۶۵۔ (جادوگروں نے )کہا: اے موسیٰ! تم پھینکو گے یا پہلے ہم پھینکیں؟

قَالَ بَلۡ اَلۡقُوۡا ۚ فَاِذَا حِبَالُہُمۡ وَ عِصِیُّہُمۡ یُخَیَّلُ اِلَیۡہِ مِنۡ سِحۡرِہِمۡ اَنَّہَا تَسۡعٰی ﴿۶۶﴾

۶۶۔ موسیٰ نے کہا: بلکہ تم پھینکو، اتنے میں ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کی وجہ سے موسیٰ کو دوڑتی محسوس ہوئیں۔

66۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ساحروں کو پہل کرنے کے لیے کہا تاکہ باطل اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرے۔ اس طرح حق باطل کو جب اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی مہلت دیتا ہے اور باطل اس مہلت میں اچھل کود کرتا ہے تو چشم ظاہر بین انجام کا انتظار کیے بغیر اس باطل کو کامیابی تصور کرتی ہے۔ چنانچہ باطل نے اپنی کاذب طاقت کا مظاہرہ کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جواب کا انتظار کیے بغیر اس باطل کو کامیابی تصور کیا گیا۔ خیال میں آیا کہ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑ رہی ہیں جبکہ حقیقت میں ان لاٹھیوں اور رسیوں میں روح نہیں آئی تھی۔ لیکن جادو کا مطلب یہی ہے ایک غیر واقعی چیز کو واقعی دکھایا جائے۔

فَاَوۡجَسَ فِیۡ نَفۡسِہٖ خِیۡفَۃً مُّوۡسٰی﴿۶۷﴾

۶۷۔ پس موسیٰ نے اپنے اندر خوف محسوس کیا۔

67۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خوف یہ تھا کہ کہیں اس بھرپور جادو کو دیکھ کر لوگ برگشتہ ہو کر گمراہ نہ ہو جائیں۔

قُلۡنَا لَا تَخَفۡ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡاَعۡلٰی﴿۶۸﴾

۶۸۔ ہم نے کہا: خوف نہ کر یقینا آپ ہی غالب آنے والے ہیں۔

68۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت آئی خوف نہ کریں آپ ہی کو بالادستی حاصل رہے گی۔

وَ اَلۡقِ مَا فِیۡ یَمِیۡنِکَ تَلۡقَفۡ مَا صَنَعُوۡا ؕ اِنَّمَا صَنَعُوۡا کَیۡدُ سٰحِرٍ ؕ وَ لَا یُفۡلِحُ السَّاحِرُ حَیۡثُ اَتٰی﴿۶۹﴾

۶۹۔ اور جو کچھ آپ کے دائیں ہاتھ میں ہے اسے پھینک دیں کہ جو کچھ انہوں نے بنایا ہے یہ ان سب کو نگل جائے گا، یہ لوگ جو کچھ بنا لائے ہیں وہ فقط جادوگر کا فریب ہے اور جادوگر جہاں بھی ہو کامیاب نہیں ہو سکتا ۔

69۔ ان لاٹھیوں اور رسیوں کا نگل جانا ہمارے محسوس اور مانوس مادی علل و اسباب کی رو سے تو قابل فہم نہیں ہے، البتہ اُن ناقابل تسخیر علل و اسباب سے اس کی توجیہ ہو سکتی ہے جن پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی گرفت ہے اور اسی کو معجزہ کہتے ہیں۔

فَاُلۡقِیَ السَّحَرَۃُ سُجَّدًا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ ہٰرُوۡنَ وَ مُوۡسٰی﴿۷۰﴾

۷۰۔ پھر جادوگر سجدے میں گر پڑے اور کہنے لگے: ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لے آئے۔

70۔ انہیں یقین حاصل ہو گیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عصا کے ذریعے جو کام انجام دیا ہے وہ جادو نہیں ہے کیونکہ جادو کے ماہرین اس راز کو جانتے تھے جس سے جادو کا عمل انجام دیا جاتا ہے۔