قَالَ بَلۡ اَلۡقُوۡا ۚ فَاِذَا حِبَالُہُمۡ وَ عِصِیُّہُمۡ یُخَیَّلُ اِلَیۡہِ مِنۡ سِحۡرِہِمۡ اَنَّہَا تَسۡعٰی ﴿۶۶﴾

۶۶۔ موسیٰ نے کہا: بلکہ تم پھینکو، اتنے میں ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کی وجہ سے موسیٰ کو دوڑتی محسوس ہوئیں۔

66۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ساحروں کو پہل کرنے کے لیے کہا تاکہ باطل اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرے۔ اس طرح حق باطل کو جب اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی مہلت دیتا ہے اور باطل اس مہلت میں اچھل کود کرتا ہے تو چشم ظاہر بین انجام کا انتظار کیے بغیر اس باطل کو کامیابی تصور کرتی ہے۔ چنانچہ باطل نے اپنی کاذب طاقت کا مظاہرہ کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جواب کا انتظار کیے بغیر اس باطل کو کامیابی تصور کیا گیا۔ خیال میں آیا کہ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑ رہی ہیں جبکہ حقیقت میں ان لاٹھیوں اور رسیوں میں روح نہیں آئی تھی۔ لیکن جادو کا مطلب یہی ہے ایک غیر واقعی چیز کو واقعی دکھایا جائے۔