وَ ہُوَ الۡقَاہِرُ فَوۡقَ عِبَادِہٖ وَ یُرۡسِلُ عَلَیۡکُمۡ حَفَظَۃً ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ تَوَفَّتۡہُ رُسُلُنَا وَ ہُمۡ لَا یُفَرِّطُوۡنَ﴿۶۱﴾

۶۱۔ اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر نگہبانی کرنے والے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی ایک کو موت آ جائے تو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اس کی روح قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔

61۔ اللہ اپنی قہاریت کی بنا پر انسانوں کے لیے نگہبان فرشتے معین فرماتا ہے۔ بعض حضرات کا یہ خیال ہے کہ اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو اعمال کی نگہبانی کرتے ہیں۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: وَ اِنَّ عَلَیۡکُمۡ لَحٰفِظِیۡنَ ﴿﴾ کِرَامًا کَاتِبِیۡنَ ﴿﴾ (انفطار: 10۔ 11) جبکہ بعض دوسرے مفسرین کا نظریہ ہے کہ یہ فرشتے انسانوں کی اجل تک ان کی جان کی حفاظت کرتے ہیں۔ لیکن آیت کے اطلاق میں دونوں قسم کی محافظت کا شامل ہونا بعید از امکان نہیں ہے۔

ثُمَّ رُدُّوۡۤا اِلَی اللّٰہِ مَوۡلٰىہُمُ الۡحَقِّ ؕ اَلَا لَہُ الۡحُکۡمُ ۟ وَ ہُوَ اَسۡرَعُ الۡحٰسِبِیۡنَ﴿۶۲﴾

۶۲۔پھر وہ اپنے مالک حقیقی اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے، آگاہ رہو فیصلہ کرنے کا حق صرف اسی کو حاصل ہے اور وہ نہایت سرعت سے حساب لینے والا ہے۔

قُلۡ مَنۡ یُّنَجِّیۡکُمۡ مِّنۡ ظُلُمٰتِ الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ تَدۡعُوۡنَہٗ تَضَرُّعًا وَّ خُفۡیَۃً ۚ لَئِنۡ اَنۡجٰىنَا مِنۡ ہٰذِہٖ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیۡنَ﴿۶۳﴾

۶۳۔ کہدیجئے: کون ہے جو تمہیں صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں نجات دیتا ہے؟ جس سے تم گڑگڑا کر اور چپکے چپکے التجا کرتے ہو کہ اگر اس (بلا) سے ہمیں بچا لیا تو ہم شکر گزاروں میں سے ہوں گے۔

قُلِ اللّٰہُ یُنَجِّیۡکُمۡ مِّنۡہَا وَ مِنۡ کُلِّ کَرۡبٍ ثُمَّ اَنۡتُمۡ تُشۡرِکُوۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔کہدیجئے: تمہیں اس سے اور ہر مصیبت سے اللہ ہی نجات دیتا ہے پھر بھی تم شرک کرتے ہو۔

63۔ 64 اس سے پہلے آیت 4 تا 41 میں ذکر کیا گیا کہ سخت مصیبت و شدید اضطراب کی حالت میں تمام مادی و دنیوی سہاروں سے مایوس ہو جاتا ہے تو انسان کے وجود کے اندر موجود وجدانی اور ضمیری انسان کے سامنے سے ساری رکاوٹیں ہٹ جاتی ہیں اور وہ اپنی فطرت کے عین مطابق اپنے خالق حقیقی ہی کی بارگاہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اللہ کے ساتھ عہد کرتا ہے کہ آئندہ زندگی شکر گزاروں کی طرح گزاروں گا لیکن وہ مادی دنیاوی عوامل دوبارہ اس کے اور اس کے وجدان اور فطرت کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں، پھر مشرکانہ حرکتیں شروع کر دیتا ہے۔ اس آیت میں ایسے مشرکوں کی تنبیہ ہے۔

قُلۡ ہُوَ الۡقَادِرُ عَلٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَ عَلَیۡکُمۡ عَذَابًا مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ اَوۡ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِکُمۡ اَوۡ یَلۡبِسَکُمۡ شِیَعًا وَّ یُذِیۡقَ بَعۡضَکُمۡ بَاۡسَ بَعۡضٍ ؕ اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَفۡقَہُوۡنَ﴿۶۵﴾

۶۵۔ کہدیجئے:اللہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ تمہارے اوپر سے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے تم پر کوئی عذاب بھیج دے یا تمہیں فرقوں میں الجھا کر ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم اپنی آیات کو کس طرح مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔

65۔اوپر سے آنے والے اور قدموں کے نیچے سے آنے والے عذاب کے بارے میں مفسرین نے مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے:

الف: اوپر سے آنے والا عذاب طوفان اور سنگباری ہے جبکہ نیچے سے پھوٹنے والا عذاب زمین میں دھنس جانا ہے، جیسے قارون کے لیے ہوا۔

ب: اوپر سے آنے والا عذاب حکمرانوں کی طرف سے آنے والا عذاب ہے، جب کہ نیچے سے آنے والا عذاب نوکروں کی طرف سے آنے والا عذاب ہے۔

ج: ہمارے بعض معاصر مفسر جنگوں میں اوپر سے آنے والی بمباری اور نیچے سے پھٹنے والی مائنز بھی مراد لیتے ہیں۔

ان تمام اقوال سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ”اوپر نیچے“ ایک تعبیر ہے۔ اصل مراد یہ ہے کہ اللہ تمہیں ہر طرف سے آنے والے عذاب سے گھیر سکتا ہے، ساتھ اس میں اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ ایسے عذاب کے تم مستحق بھی ہو۔ عذاب الٰہی کی ایک صورت تو آسمانی آفات اور زمینی حوادث ہیں۔ دوسری صورت آپس کی بدامنی اور خانہ جنگی ہے جس میں امت مختلف گروہوں میں بٹ جاتی ہے اور ایک گروہ دوسرے گروہ پر چڑھ آتا ہے نیز امت داخلی بدامنی اور عدم تحفظ کا شکار ہو جاتی ہے۔

وَ کَذَّبَ بِہٖ قَوۡمُکَ وَ ہُوَ الۡحَقُّ ؕ قُلۡ لَّسۡتُ عَلَیۡکُمۡ بِوَکِیۡلٍ ﴿ؕ۶۶﴾

۶۶۔اور آپ کی قوم نے اس (قرآن) کی تکذیب کی ہے حالانکہ یہ حق ہے، کہدیجئے: میں تمہارا نگہبان نہیں ہوں۔

لِکُلِّ نَبَاٍ مُّسۡتَقَرٌّ ۫ وَّ سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ اور ہر خبر کے لیے ایک وقت مقرر ہے عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔

67۔ لِکُلِّ نَبَاٍ مُّسۡتَقَرٌّ : ہر خبر کے لیے ایک وقت مقرر ہے اور عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ جس زمانے میں اس آیت پر مشتمل سورہ مکہ میں نازل ہو رہا تھا، اس وقت غلبہ اسلام کا تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ اس وقت سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا، کی آواز پر آوازیں کسی جاتی تھیں اور اسلام کی فتح و نصرت کی کوئی علامت نظر نہیں آتی تھی۔ قرآن کی اس پیشگوئی پر لوگوں کو فتح مکہ کے بعد یقین آیا۔

وَ اِذَا رَاَیۡتَ الَّذِیۡنَ یَخُوۡضُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖ ؕ وَ اِمَّا یُنۡسِیَنَّکَ الشَّیۡطٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّکۡرٰی مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔ اور جب آپ دیکھیں کہ لوگ ہماری آیات کے بارے میں چہ میگوئیاں کر رہے ہیں تو آپ وہاں سے ہٹ جائیں یہاں تک کہ وہ کسی دوسری گفتگو میں لگ جائیں اور اگر کبھی شیطان آپ کو بھلا دے تو یاد آنے پر آپ ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھیں

68۔ وَ اِمَّا یُنۡسِیَنَّکَ الشَّیۡطٰنُ : کبھی شیطان تمہیں بھلا دے۔ اس جملے سے بعض لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھول چوک اور نسیان لاحق ہوتا تھا۔ حد یہ ہے کہ تفسیر المنار کے مؤلف نے نووی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے صحیح مسلم کی حدیث انما انا بشر انسی کما تنسون ۔ ”میں تم جیسا بشر ہوں جیسے تم بھولتے ہو میں بھی بھولتا ہوں“ کے ذیل میں لکھا ہے: یہ روایت اس بات پر دلیل ہے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شریعت کے احکام بیان کرنے میں نسیان لاحق ہو سکتا ہے اور یہی جمہور علماء کا مؤقف ہے۔

جبکہ احکام بیان کرنے میں نسیان، نص قرآن سَنُقۡرِئُکَ فَلَا تَنۡسٰۤی کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ بیان احکام میں رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عصمت کے بھی خلاف ہے۔

وَ مَا عَلَی الَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ مِنۡ حِسَابِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ وَّ لٰکِنۡ ذِکۡرٰی لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ﴿۶۹﴾

۶۹۔اور اہل تقویٰ پر ان (ظالموں) کا کچھ بار حساب نہیں تاہم نصیحت کرنا چاہیے شاید وہ اپنے آپ کو بچا لیں۔

وَ ذَرِ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا دِیۡنَہُمۡ لَعِبًا وَّ لَہۡوًا وَّ غَرَّتۡہُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا وَ ذَکِّرۡ بِہٖۤ اَنۡ تُبۡسَلَ نَفۡسٌۢ بِمَا کَسَبَتۡ ٭ۖ لَیۡسَ لَہَا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیۡعٌ ۚ وَ اِنۡ تَعۡدِلۡ کُلَّ عَدۡلٍ لَّا یُؤۡخَذۡ مِنۡہَا ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اُبۡسِلُوۡا بِمَا کَسَبُوۡا ۚ لَہُمۡ شَرَابٌ مِّنۡ حَمِیۡمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ﴿٪۷۰﴾

۷۰۔ اور (اے رسول) جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنایا ہوا ہے اور دنیا کی زندگی نے انہیں فریب دے رکھا ہے آپ انہیں چھوڑ دیں البتہ اس (قرآن) کے ذریعے انہیں نصیحت ضرور کریں مبادا کوئی شخص اپنے کیے کے بدلے پھنس جائے کہ اللہ کے سوا اس کا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ ہی شفاعت کنندہ اور اگر وہ ہر ممکن معاوضہ دینا چاہے تب بھی اس سے قبول نہ ہو گا، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی کرتوتوں کی وجہ سے گرفتار بلا ہوئے، ان کے کفر کے عوض ان کے پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہے۔

70۔ خواہش پرستوں نے ہمیشہ دین کو اپنی خواہشات کے تابع بنایا ہے۔ جس طرح کوئی کھیلنے والا کسی چیز کو اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق الٹ پلٹ کرتا ہے، خواہش پرست دین کو بھی اپنی مرضی کے مطابق کر دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کو نصیحت کرنے کا حکم رحمۃ علی الخلق کی بنیاد پر دیا جاتا ہے کہ یہ لوگ ثواب الٰہی سے محروم نہ رہ جائیں اور ہلاکت ابدی سے دو چار نہ ہوں، چونکہ اگر یہ لوگ دنیا میں اس نصیحت پر عمل نہ کریں تو روز آخرت ان کے لیے کوئی شفاعت، کوئی فدیہ اور کوئی کارساز نہ ہو گا، بلکہ ان کے لیے کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہو گا۔