وَ اِذَا رَاَیۡتَ الَّذِیۡنَ یَخُوۡضُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖ ؕ وَ اِمَّا یُنۡسِیَنَّکَ الشَّیۡطٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّکۡرٰی مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔ اور جب آپ دیکھیں کہ لوگ ہماری آیات کے بارے میں چہ میگوئیاں کر رہے ہیں تو آپ وہاں سے ہٹ جائیں یہاں تک کہ وہ کسی دوسری گفتگو میں لگ جائیں اور اگر کبھی شیطان آپ کو بھلا دے تو یاد آنے پر آپ ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھیں

68۔ وَ اِمَّا یُنۡسِیَنَّکَ الشَّیۡطٰنُ : کبھی شیطان تمہیں بھلا دے۔ اس جملے سے بعض لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو بھول چوک اور نسیان لاحق ہوتا تھا۔ حد یہ ہے کہ تفسیر المنار کے مؤلف نے نووی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے صحیح مسلم کی حدیث انما انا بشر انسی کما تنسون ۔ ”میں تم جیسا بشر ہوں جیسے تم بھولتے ہو میں بھی بھولتا ہوں“ کے ذیل میں لکھا ہے: یہ روایت اس بات پر دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو شریعت کے احکام بیان کرنے میں نسیان لاحق ہو سکتا ہے اور یہی جمہور علماء کا مؤقف ہے۔

جبکہ احکام بیان کرنے میں نسیان، نص قرآن سَنُقۡرِئُکَ فَلَا تَنۡسٰۤی کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ بیان احکام میں رسول ﷺ کی عصمت کے بھی خلاف ہے۔