قَالَ قَآئِلٌ مِّنۡہُمۡ اِنِّیۡ کَانَ لِیۡ قَرِیۡنٌ ﴿ۙ۵۱﴾

۵۱۔ ان میں سے ایک کہنے والا کہے گا: میرا ایک ہم نشین تھا،

51۔ یعنی اہل جنت باہمی گفتگو میں مصروف ہوں گے۔ اسی دوران ایک جنتی مومن اپنی دنیاوی زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے اس کافر ساتھی کا ذکر چھیڑے گا جو اس بات پر اس کا مذاق اڑاتا تھا کہ وہ (مومن) قیامت اور حیات بعد از ممات کا معتقد تھا۔ پھر کہے گا: کیا آپ اس شخص کو دیکھنا چاہتے ہیں؟ چنانچہ اس شخص کو جہنم کے وسط میں دیکھ کر جنتی بول اٹھے گا: اللہ کی قسم تو مجھے ہلاک کرنے ہی والا تھا۔ اگر اللہ کی رحمت شامل حال نہ ہوتی تو میرا حشر بھی تیرے جیسا ہوتا۔ اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ آخرت میں زمان و مکان کا وہ تصور نہ ہو گا جو دنیا میں ہے۔ ورنہ کوئی انسان یہ سوال کر سکتا ہے کہ جہنم جنت کے اس قدر نزدیک ہے کہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے۔

یَّقُوۡلُ اَئِنَّکَ لَمِنَ الۡمُصَدِّقِیۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔ جو (مجھ سے) کہتا تھا: کیا تم (قیامت کی) تصدیق کرنے والوں میں سے ہو ؟

ءَ اِذَا مِتۡنَا وَ کُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَدِیۡنُوۡنَ﴿۵۳﴾

۵۳۔ بھلا جب ہم مر چکیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا ہمیں جزا ملے گی؟

قَالَ ہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّطَّلِعُوۡنَ﴿۵۴﴾

۵۴۔ ارشاد ہو گا: کیا تم دیکھنا چاہتے ہو؟

فَاطَّلَعَ فَرَاٰہُ فِیۡ سَوَآءِ الۡجَحِیۡمِ﴿۵۵﴾

۵۵۔ پھر اس نے جھانکا تو اسے وسط جہنم میں دیکھے گا۔

قَالَ تَاللّٰہِ اِنۡ کِدۡتَّ لَتُرۡدِیۡنِ ﴿ۙ۵۶﴾

۵۶۔ کہے گا: قسم بخدا قریب تھا کہ تو مجھے بھی ہلاک کر دے۔

وَ لَوۡ لَا نِعۡمَۃُ رَبِّیۡ لَکُنۡتُ مِنَ الۡمُحۡضَرِیۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔ اور اگر میرے رب کی نعمت نہ ہوتی تو میں بھی (عذاب میں) حاضر کیے جانے والوں میں ہوتا۔

اَفَمَا نَحۡنُ بِمَیِّتِیۡنَ ﴿ۙ۵۸﴾

۵۸۔ کیا اب ہمیں نہیں مرنا؟

اِلَّا مَوۡتَتَنَا الۡاُوۡلٰی وَ مَا نَحۡنُ بِمُعَذَّبِیۡنَ﴿۵۹﴾

۵۹۔ ہماری پہلی موت کے بعد ہمیں کوئی اور عذاب نہ ہو گا؟

59۔ پہلی موت سے مراد وہ موت ہے جس نے دنیاوی زندگی کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد آخرت کی زندگی کا دائمی ہونا اسلامی تعلیمات میں ایک مسلمہ امر ہے۔ قرآن اس حقیقت کو خلود کے ساتھ یاد فرماتا ہے اور کبھی اس لفظ کے ساتھ لفظ ابداً بھی استعمال ہوا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: انما خلقتم للبقاء لا للفناء ۔ (غرر الحکم:113 ح2291) تم ہمیشہ رہنے کے لیے پیدا کئے گئے ہو، فنا کے لیے نہیں۔ یوں جنت والے جنت میں اور جہنم والے جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ البتہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو ایک مدت تک جہنم میں سزا کاٹنے کے بعد جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔

اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ﴿۶۰﴾

۶۰۔ یقینا یہ عظیم کامیابی ہے۔

60۔ کامیابی کی عظمت اس کے دوام کی مدت سے معلوم ہوتی ہے۔ اگر وہ مدت لا محدود اور ابدی ہو تو اس صورت میں اس کامیابی کی عظمت بھی لا محدود ہو گی۔