لِمِثۡلِ ہٰذَا فَلۡیَعۡمَلِ الۡعٰمِلُوۡنَ﴿۶۱﴾

۶۱۔ عمل کرنے والوں کو ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنا چاہیے۔

61۔ ہر صاحب عقل کے لیے ایک اہم دعوت ہے کہ اگر مسئلہ ایک مدت سے مربوط ہو تو انسان کہ سکتا ہے کہ اسے بہرحال گزار لیں گے۔ لیکن اگر مسئلہ دائمی ہو تو اس سے بے اعتنائی برتنا نہایت بیوقوفی ہو گی۔ انسان اگر فطرتاً کامیابی کے لیے مشقت اٹھاتا ہے تو اسے اس عظیم کامیابی اور اس دائمی زندگی کے لیے محنت اور مشقت اٹھانا چاہیے۔

اَذٰلِکَ خَیۡرٌ نُّزُلًا اَمۡ شَجَرَۃُ الزَّقُّوۡمِ﴿۶۲﴾

۶۲۔ کیا یہ مہمانی اچھی ہے یا زقوم کا درخت؟

اِنَّا جَعَلۡنٰہَا فِتۡنَۃً لِّلظّٰلِمِیۡنَ﴿۶۳﴾

۶۳۔ ہم نے اسے ظالموں کے لیے ایک آزمائش بنا دیا ہے۔

63۔ آزمائش اس طرح کہ اسے سن کر کون اس کی تصدیق کرتا ہے اور کون تکذیب۔ اس کا دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا ہے: ہم نے اسے ظالموں کے لیے ایک عذاب بنا دیا ہے۔ اس صورت میں فتنہ سے مراد عذاب ہو گا۔

اِنَّہَا شَجَرَۃٌ تَخۡرُجُ فِیۡۤ اَصۡلِ الۡجَحِیۡمِ ﴿ۙ۶۴﴾

۶۴۔ یہ ایسا درخت ہے جو جہنم کی تہ سے نکلتا ہے۔

طَلۡعُہَا کَاَنَّہٗ رُءُوۡسُ الشَّیٰطِیۡنِ﴿۶۵﴾

۶۵۔ اس کے خوشے شیاطین کے سروں جیسے ہیں۔

65۔ اگرچہ شیطان کے سروں کو کسی نے دیکھا نہیں کہ ان کے ساتھ تشبیہ دی جائے، تاہم لوگوں کے ذہنوں میں شیطان کے بارے میں یہ خیال مسلمہ ہے کہ وہ کریہ المنظر ہوتے ہیں، جبکہ فرشتے نہایت حسین و جمیل۔ اس لیے یہ تشبیہ درست ہے۔

فَاِنَّہُمۡ لَاٰکِلُوۡنَ مِنۡہَا فَمَالِـُٔوۡنَ مِنۡہَا الۡبُطُوۡنَ ﴿ؕ۶۶﴾

۶۶۔ پھر وہ اس میں سے کھائیں گے اور اس سے پیٹ بھریں گے۔

66۔ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ عذاب کے کئی مراحل ہیں۔ چنانچہ پہلے ان کا پیٹ زقوم کے پھل سے بھر دیا جائے گا، پھر انہیں کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا، پھر جہنم میں ان کا ٹھکانا ہو گا۔

ثُمَّ اِنَّ لَہُمۡ عَلَیۡہَا لَشَوۡبًا مِّنۡ حَمِیۡمٍ ﴿ۚ۶۷﴾

۶۷۔پھر ان کے لیے اس پر کھولتا ہوا پانی ملا دیا جائے گا۔

ثُمَّ اِنَّ مَرۡجِعَہُمۡ لَا۠ اِلَی الۡجَحِیۡمِ﴿۶۸﴾

۶۸۔ پھر ان کا ٹھکانا بہرصورت جہنم ہو گا۔

اِنَّہُمۡ اَلۡفَوۡا اٰبَآءَہُمۡ ضَآلِّیۡنَ ﴿ۙ۶۹﴾

۶۹۔ بلا شبہ انہوں نے اپنے باپ دادا کو گمراہ پایا۔

فَہُمۡ عَلٰۤی اٰثٰرِہِمۡ یُہۡرَعُوۡنَ﴿۷۰﴾

۷۰۔ پھر وہ ان کے نقش قدم پر دوڑ پڑے۔