فَمَنۡۢ بَدَّلَہٗ بَعۡدَ مَا سَمِعَہٗ فَاِنَّمَاۤ اِثۡمُہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ یُبَدِّلُوۡنَہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۱۸۱﴾ؕ

۱۸۱۔جو وصیت کو سن لینے کے بعد اسے بدل ڈالے تو اس کا گناہ ان بدلنے والوں پر ہو گا، اللہ یقینا ہر بات کا خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

فَمَنۡ خَافَ مِنۡ مُّوۡصٍ جَنَفًا اَوۡ اِثۡمًا فَاَصۡلَحَ بَیۡنَہُمۡ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۸۲﴾٪

۱۸۲۔ البتہ جو شخص یہ خوف محسوس کرے کہ وصیت کرنے والے نے جانبداری یا گناہ کا ارتکاب کیا ہے، پھر وہ آپس میں صلح کرا دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ﴿۱۸۳﴾ۙ

۱۸۳۔ اے ایمان والو! تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔

اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۸۴﴾

۱۸۴۔( یہ روزے) گنتی کے چند دن ہیں، پھر اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں مقدار پوری کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرتے ہیں وہ فدیہ دیں جو ایک مسکین کا کھانا ہے، پس جو اپنی خوشی سے نیکی کرے تو اس کے لیے بہتر ہے اور اگر تم سمجھو تو روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے۔

184۔ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ یعنی روزہ رکھنے میں خود تمہاری بہتری ہے۔ اس بہتری کو ہمارے علم کے ساتھ مربوط فرمایا۔ چنانچہ کل کی نسبت آج کا انسان روزے کے طبی، اخلاقی اور نفسیاتی فوائد کو بہتر سمجھ سکتا ہے۔

اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ :گنتی کے چند دن، یعنی ماہ رمضان۔ کیونکہ بارہ مہینوں میں سے ایک ماہ گنتی کے چند دن ہی ہوتے ہیں۔ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سال میں چند دن یعنی ایک ماہ کے روزے رکھنا کوئی پر مشقت کام نہیں ہے۔

روزے کا حکم بیان فرمانے کے بعد مسافر اور مریض کے لیے فرمایا کہ اگر وہ ان معدود ایام میں روزہ نہ رکھ سکیں تو اس مقدار کو دوسرے دنوں میں پورا کر سکتے ہیں کیونکہ مقررہ دنوں میں نہ سہی لیکن اصل روزہ تو ہر حال میں بجا لانا ہو گا۔

شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ وَ لِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ﴿۱۸۵﴾

۱۸۵۔ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ایسے دلائل پر مشتمل ہے جو ہدایت اور(حق و باطل میں)امتیاز کرنے والے ہیں، لہٰذا تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے وہ روزہ رکھے اور جو بیمار اور مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں مقدار پوری کرے، اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا اور وہ چاہتا ہے کہ تم مقدار پوری کرو اور اللہ نے تمہیں جس ہدایت سے نوازا ہے اس پر اللہ کی عظمت و کبریائی کا اظہار کرو شاید تم شکر گزار بن جاؤ۔

185۔ فقہ جعفری کے مطابق حالت سفر اور حالت مرض میں روزہ ہوتا ہی نہیں ہے، بعد میں قضا رکھنا ہو گا۔ جو لوگ روزہ رکھنے میں غیر معمولی مشقت محسوس کرتے ہیں وہ فی روزہ فدیہ دیں جو ایک مسکین کا کھانا ہے۔

رمضان، رمض سے مشتق ہے جو سخت تپش کے معنوں میں ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رمضان کو یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ ایمان کی تپش سے گناہوں کو جلا دیتا ہے۔

اس آیت میں ارشاد فرماتا ہے کہ قرآن رمضان میں نازل ہوا جبکہ عملاً قرآن 23 سالوں میں تدریجاً نازل ہوا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وضاحت یہ ہے کہ قرآن قلب رسول پر شب قدر میں نازل ہوا۔ بعد میں بیانِ احکام کے لیے وحی کا انتظار کرنے کا حکم تھا۔ چنانچہ رمضان میں نزول کے لیے انزل فرمایا جو یکبارگی نزول کے معنوں میں ہے اور 23 سالوں والے نزول کے لیے نزلنہ تنزیلا فرمایا تنزیل تدریجی نزول کے معنوں میں ہے۔ واضح رہے اَنۡزَلَ اور نَزَّلَ کے درمیان یہ فرق ایک نظریہ ہے۔ راقم کا نظریہ نہیں ہے۔

وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ : یہ ایک کلی قانون ہے جس کے تحت ہر وہ عمل جس میں عسر و حرج لازم آئے وہ ارادﮤ الٰہی میں شامل نہیں ہے۔ لہٰذا وہ نافذ نہیں ہے۔

وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ﴿۱۸۶﴾

۱۸۶۔ اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو (کہدیں کہ) میں (ان سے) قریب ہوں، دعا کرنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں، پس انہیں بھی چاہیے کہ وہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہ راست پر رہیں۔

186۔ وہ مومن کے دل بلکہ اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے خود انسان کے اپنے نفس کے علاوہ اور کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔کسی مادی وسیلے کے بغیر اس تک اپنی درخواست پہنچائی جا سکتی ہے۔ اس آیت میں ایک وعدہ ہے اور ایک شرط۔ وعدہ یہ ہے: اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ میں دعا کرنے والوں کی دعا قبول کرتا ہوں، شرط یہ ہے: اِذَا دَعَانِ جب وہ مجھے پکارے۔ اگر دل و جان سے اللہ کو پکارنے کی شرط پوری کر دی جائے تو اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔

احادیث کے مطابق دعا مومن کا اسلحہ، عبادت کی روح، کامیابی کی کنجی، بہترین عبادت اور مؤمن کی سپر ہے۔ قبولیت دعا کے لیے معرفت الٰہی، اس کے مطابق عمل، حلال کی کمائی اور حضور قلب ہونا ضروری ہے اور آسائش کے وقت بھی تضرع و زاری سے دعا کرتے رہنا چاہیے۔

دعا سے انسان رحمت الہی کا مستحق اور اللہ کے ارادے کے لیے اہل بن جاتا ہے، یہاں سے اس کی تقدیر بدل جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے: الدُّعَائُ یَرُدُّ الْقَضَائَ المُبْرَمَ بَعْدَ مَا اُبْرِمَ اِبْرَامًا ۔ (المستدرک 5 : 116) دعا تقدیر کو اس وقت بھی بدل دیتی ہے جب وہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہو۔

آداب دعا یہ ہیں کہ پہلے اللہ کی حمد و ثنا پھر محمد و آل محمد پر درود اور اپنے گناہوں کا اعتراف ہونا چاہیے۔

اُحِلَّ لَکُمۡ لَیۡلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمۡ ؕ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ ؕ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ تَخۡتَانُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ فَتَابَ عَلَیۡکُمۡ وَ عَفَا عَنۡکُمۡ ۚ فَالۡـٰٔنَ بَاشِرُوۡہُنَّ وَ ابۡتَغُوۡا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمۡ ۪ وَ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الۡخَیۡطُ الۡاَبۡیَضُ مِنَ الۡخَیۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیۡلِ ۚ وَ لَا تُبَاشِرُوۡہُنَّ وَ اَنۡتُمۡ عٰکِفُوۡنَ ۙ فِی الۡمَسٰجِدِ ؕ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ فَلَا تَقۡرَبُوۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ﴿۱۸۷﴾

۱۸۷۔ اور روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا تمہارے لیے حلال کر دیا گیا ہے، وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو، اللہ نے دیکھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے پس اللہ نے تم پر عنایت کی اور تم سے درگزر فرمایا، پس اب تم اپنی بیویوں سے مباشرت کرو اور اللہ نے جو تمہارے لیے مقرر فرمایا ہے اسے تلاش کرو اور (راتوں کو) خوردونوش کرو، یہاں تک کہ تم پر فجر کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے نمایاں ہو جائے، پھر رات تک روزے کو پورا کرو اور جب تم مساجد میں اعتکاف کی حالت میں ہو تو اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، ان کے قریب نہ جاؤ، اس طرح اللہ اپنی آیات لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔

187۔ ابتدا میں روزوں کی راتوں میں بیویوں سے مباشرت حرام تھی اور فقط سونے سے پہلے کھانا کھا سکتے تھے۔ اس آیت میں مباشرت اور فجر کی سفید دھاری ظاہر ہونے تک کھانا حلال کر دیا گیا، ساتھ ہی میاں بیوی کا تعلق بیان ہوا۔ دونوں کے لیے تعبیر یکساں ہے کہ باہمی ربط و تعلق زیب و زینت اور تحفظ کے اعتبار سے یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لباس جیسی اہمیت رکھتے ہیں۔

وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَ تُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۸۸﴾٪

۱۸۸۔اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ اور نہ ہی اسے حکام کے پاس پیش کرو تاکہ تمہیں دوسروں کے مال کا کچھ حصہ دانستہ طور پر ناجائز طریقے سے کھانے کا موقع میسر آئے۔

188۔ اَمۡوَالَکُمۡ کی تعبیر سے انفرادی ملکیت ثابت ہوتی ہے بلکہ اسلام اس انفرادی ملکیت کی حرمت کا قائل ہے۔ حرمۃ مال المسلم کحرمۃ دمہ (الکافی2: 666)۔ مال مسلم کو وہی حرمت حاصل ہے جو اس کے خون کو ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے : فَاَمَّا الرَّشَا فِی الْحُکْمِ فَھُوَ الْکُفْرُ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ ۔ (الکافی 5 : 127) (عدالتی) فیصلوں میں رشوت لینا خدائے عظیم سے کفر برتنے کے مترادف ہے۔

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَہِلَّۃِ ؕ قُلۡ ہِیَ مَوَاقِیۡتُ لِلنَّاسِ وَ الۡحَجِّ ؕ وَ لَیۡسَ الۡبِرُّ بِاَنۡ تَاۡتُوا الۡبُیُوۡتَ مِنۡ ظُہُوۡرِہَا وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنِ اتَّقٰیۚ وَ اۡتُوا الۡبُیُوۡتَ مِنۡ اَبۡوَابِہَا ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ﴿۱۸۹﴾

۱۸۹۔لوگ آپ سے چاند کے(گھٹنے بڑھنے کے) بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: یہ لوگوں کے لیے اور حج کے اوقات کے تعین کا ذریعہ ہے اور (ساتھ یہ بھی کہدیجئے کہ حج کے احرام باندھو تو) پشت خانہ سے داخل ہونا کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے اور تم (اپنے) گھروں میں دروازوں سے ہی داخل ہوا کرو اور اللہ (کی ناراضگی) سے بچے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

189۔ چاند آسمان پر آویزاں ایک تقویم ہے جو آسانی سے ہر خواندہ اور ناخواندہ شخص دیکھ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے قمری تقویم قدیم زمانوں سے قابل عمل چلی آ رہی ہے۔ چنانچہ مصری، سومری، یونانی اور دوسری قومیں قمری تقویم پر عمل پیرا تھیں۔ شمسی جنتری ہر شخص کے لیے قابل فہم نہیں ہے۔ چنانچہ یہ تقویم بہت سے مفکرین کی مسلسل کوششوں سے موجودہ شکل میں آ گئی ہے۔

عربوں کی تو ہم پرستانہ رسوم میں سے ایک یہ تھی کہ حج کے لیے احرام باندھنے کے بعد وہ اپنے گھروں میں دروازے سے داخل نہیں ہوتے تھے،بلکہ پیچھے سے دیوار پھلانگ کر یا گھر کی عقبی کھڑکی سے داخل ہوتے تھے۔ ان اوہام کو ختم کرتے ہوئے قرآن کریم نے نیکی کا حقیقی معیار بیان فرمایا ہے کہ تقویٰ اختیار کرو۔

وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ وَ لَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ﴿۱۹۰﴾

۱۹۰۔اور تم راہ خدا میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے تجاوز نہ کرو اللہ تجاوز کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔

190۔ مسلمانوں کو پہلی بار یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ جو لوگ تمہاری دعوت کے خلاف مسلح مزاحمت کرتے ہیں ان سے مسلح جہاد کرو، جبکہ اس سے پہلے صبر کرنے اور مناسب وقت کے انتظار کی ہدایت کی جاتی تھی۔