وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ﴿۱۸۶﴾
۱۸۶۔ اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو (کہدیں کہ) میں (ان سے) قریب ہوں، دعا کرنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں، پس انہیں بھی چاہیے کہ وہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہ راست پر رہیں۔
186۔ وہ مومن کے دل بلکہ اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے خود انسان کے اپنے نفس کے علاوہ اور کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔کسی مادی وسیلے کے بغیر اس تک اپنی درخواست پہنچائی جا سکتی ہے۔ اس آیت میں ایک وعدہ ہے اور ایک شرط۔ وعدہ یہ ہے: اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ میں دعا کرنے والوں کی دعا قبول کرتا ہوں، شرط یہ ہے: اِذَا دَعَانِ جب وہ مجھے پکارے۔ اگر دل و جان سے اللہ کو پکارنے کی شرط پوری کر دی جائے تو اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔
احادیث کے مطابق دعا مومن کا اسلحہ، عبادت کی روح، کامیابی کی کنجی، بہترین عبادت اور مؤمن کی سپر ہے۔ قبولیت دعا کے لیے معرفت الٰہی، اس کے مطابق عمل، حلال کی کمائی اور حضور قلب ہونا ضروری ہے اور آسائش کے وقت بھی تضرع و زاری سے دعا کرتے رہنا چاہیے۔
دعا سے انسان رحمت الہی کا مستحق اور اللہ کے ارادے کے لیے اہل بن جاتا ہے، یہاں سے اس کی تقدیر بدل جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے: الدُّعَائُ یَرُدُّ الْقَضَائَ المُبْرَمَ بَعْدَ مَا اُبْرِمَ اِبْرَامًا ۔ (المستدرک 5 : 116) دعا تقدیر کو اس وقت بھی بدل دیتی ہے جب وہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہو۔
آداب دعا یہ ہیں کہ پہلے اللہ کی حمد و ثنا پھر محمد و آل محمد پر درود اور اپنے گناہوں کا اعتراف ہونا چاہیے۔