آیت 52
 

قُلۡ ہَلۡ تَرَبَّصُوۡنَ بِنَاۤ اِلَّاۤ اِحۡدَی الۡحُسۡنَیَیۡنِ ؕ وَ نَحۡنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمۡ اَنۡ یُّصِیۡبَکُمُ اللّٰہُ بِعَذَابٍ مِّنۡ عِنۡدِہٖۤ اَوۡ بِاَیۡدِیۡنَا ۫ۖ فَتَرَبَّصُوۡۤا اِنَّا مَعَکُمۡ مُّتَرَبِّصُوۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔ کہدیجئے: کیا تم ہمارے بارے میں دو بھلائیوں (فتح یا شہادت) میں سے ایک ہی کے منتظر ہو اور ہم تمہارے بارے میں اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ خود اپنے پاس سے تمہیں عذاب دے یا ہمارے ہاتھوں عذاب دلوائے، پس اب تم بھی انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ ہَلۡ تَرَبَّصُوۡنَ بِنَاۤ اِلَّاۤ اِحۡدَی الۡحُسۡنَیَیۡنِ: دو مؤقفوں ، دو نظریوں اور دو کائناتی تصورات کا موازنہ ہے۔ ایک مؤقف کے مطابق مجاہد کے لیے ناکامی کا تصور نہیں ہے۔ اگر فتح ملتی ہے تو کامیابی کیونکہ اس میں ایک ملت کے اپنے ہدف کا حصول ہے اور اگر شہادت نصیب ہوتی ہے تو کامیابی کیونکہ اس میں افراد کی عند اللہ سرخروئی بھی ہے اور ملت کی کامرانی کے لیے ان شہیدوں کا خون کام آیا ہے۔

۲۔ وَ نَحۡنُ نَتَرَبَّصُ: دوسرے مؤقف کے مطابق کامیابی کا تصور یہ ہے: اگر وہ غالب آتے ہیں تو چند روز وہ زندہ رہ سکیں گے لیکن کل عذاب الٰہی میں مبتلا ہو جائیں گے۔ اگر وہ مارے گئے تو بھی وہ مؤمنین کے ہاتھوں عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے۔

لہٰذا تم ہماری سعادت کا انتظار کرو ہم تمہاری بدبختی کا انتظار کرتے ہیں۔ انتظار دونوں کو ہے۔ ولی این کجا و آں کجا۔

اہم نکات

۱۔ مؤمن کے لیے ناکامی اور منافق کے لیے کامیابی کا تصور نہیں ہے۔


آیت 52