آیات 53 - 54
 

قُلۡ اَنۡفِقُوۡا طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا لَّنۡ یُّتَقَبَّلَ مِنۡکُمۡ ؕ اِنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ قَوۡمًا فٰسِقِیۡنَ﴿۵۳﴾

۵۳۔ کہدیجئے:تم اپنا مال بخوشی خرچ کرو یا بادل نخواستہ، تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، کیونکہ تم فاسق قوم ہو۔

وَ مَا مَنَعَہُمۡ اَنۡ تُقۡبَلَ مِنۡہُمۡ نَفَقٰتُہُمۡ اِلَّاۤ اَنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَ بِرَسُوۡلِہٖ وَ لَا یَاۡتُوۡنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَ ہُمۡ کُسَالٰی وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَ اِلَّا وَ ہُمۡ کٰرِہُوۡنَ﴿۵۴﴾

۵۴۔ اور ان کے خرچ کیے ہوئے مال کی قبولیت کی راہ میں بس یہی رکاوٹ ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے اور نماز کے لیے آتے ہیں تو کاہلی کے ساتھ اور راہ خدا میں تو بادل نخواستہ ہی خرچ کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ اَنۡفِقُوۡا طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا: راہ خدا میں خرچ کرنے کا عمل اپنی جگہ ایک نیک عمل ہے لیکن یہاں عمل کا نیک ہونا کافی نہیں ، عامل کا نیک ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر عمل کرنے والا حسن نہیں رکھتا تو صرف عمل کا حسن فائدہ مند نہیں ہے۔

۲۔ وَ مَا مَنَعَہُمۡ اَنۡ تُقۡبَلَ مِنۡہُمۡ: اگر کوئی فرزند باپ کو باپ ہی نہیں مانتا تو باپ ایسے بیٹے کی کسی نیکی کو قبول نہیں کر سکتا۔ یہ لوگ اللہ اور رسولؐ کو مانتے ہی نہیں۔ اس کی علامت یہ ہے کہ وہ نماز کو ایک امر مجبوری کے طور پر پڑھتے ہیں اور خرچ بھی بڑی کراہت کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس بات سے ان لوگوں کے اس سوال کا جواب بھی آ گیا کہ جو لوگ انسانیت کے لیے اتنی بڑی خدمات انجام دیتے ہیں ، ان کو ثواب کیوں نہیں ملتا۔ اگرچہ وہ مسلم نہیں ہیں لیکن ان کی خدمات بہت گرانقدر ہیں۔

اہم نکات

۱۔ قبول اعمال کے لیے فعل کے حسن کے ساتھ فاعل کا حسن بھی ضروری ہے: لَّنۡ یُّتَقَبَّلَ مِنۡکُمۡ ۔۔

۲۔ کفر کی حالت میں عمل حبط ہو جاتا ہے۔


آیات 53 - 54