آیت 51
 

قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ۚ ہُوَ مَوۡلٰىنَا ۚ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ﴿۵۱﴾

۵۱۔کہدیجئے: اللہ نے جو ہمارے لیے مقدر فرمایا ہے اس کے سوا ہمیں کوئی حادثہ ہرگز پیش نہیں آتا وہی ہمارا کارساز ہے اور مومنین کو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کریں۔

تفسیر آیات

مؤمن کا مولا اللہ ہے۔ مؤمن پر اپنے مولا یعنی اللہ کی حاکمیت ہے۔ ایسا حاکم جو اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ ہے۔ لہٰذا لازماً مؤمن اپنے مہربان مولا کے فیصلے پر ہی بھروسہ کرتا ہے۔ دیگر ظاہری اور وقتی علل و اسباب، کامیابی و ناکامی پر نہیں۔ نادان دشمن اسے ناکامی سمجھ کر خوش ہوتا ہے کیونکہ منافق کی نگاہ محسوسات تک محدود ہوتی ہے، جب کہ مؤمن کی نگاہ ان تمام محسوسات کو چیرتے ہوئے اپنے مولا کے فیصلے پر رکتی ہے۔

مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا: انسان کو پیش آنے والی شدائد و مشکلات اور حوادث دو قسم کی ہیں : اول یہ کہ انسان اپنی شامت اعمال کی وجہ سے مصائب سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں فرمایا:

وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ ۔۔۔۔۔ (۴۲ شوری: ۳۰)

اور تم پر جو مصیبت آتی ہے وہ خود تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آتی ہے۔

دوم یہ کہ انسان کو مشکلات و مصائب اس لیے پیش آتے ہیں کہ اس نے ایک ذمہ داری کو قبول کیا ہے اور راہ حق میں جہاد کرنے کو اختیار کیا ہے۔ اس راہ میں پیش آنے والی مصیبتوں سے دنیا میں انسان کو ارتقا ملتا ہے اور آخرت میں خوشنودی رب۔ یہ مصیبتیں وہ ہیں جن کو اللہ نے اپنی تکوینی کتاب میں ثبت کر رکھا ہے کہ جو میری راہ میں جہاد کرے گا اسے مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ جو اللہ کے ہاں مقام حاصل کرنا چاہے گا، اسے مشکلات کا سامنا کرنا ہو گا۔

اس آیت میں اُن مشکلات کی طرف اشارہ ہے جو راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کو پیش آتی ہیں۔

اہم نکات

۱۔ جس کے ہاتھ میں تمام فیصلے ہیں ، اسی کو مولا کہتے ہیں یا جس کو وہ مولا بنائے۔


آیت 51