آیات 87 - 88
 

وَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ وَ اِخۡوَانِہِمۡ ۚ وَ اجۡتَبَیۡنٰہُمۡ وَ ہَدَیۡنٰہُمۡ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿۸۷﴾

۸۷۔ اور اسی طرح ان کے آبا اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں کو بھی (ہدایت دی) اور ہم نے انہیں منتخب کر لیا اور ہم نے راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کی۔

ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ ؕ وَ لَوۡ اَشۡرَکُوۡا لَحَبِطَ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۸۸﴾

۸۸۔یہ ہے اللہ کی ہدایت جس سے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے نوازے اور اگر وہ لوگ شرک کرتے تو ان کے کیے ہوئے تمام اعمال برباد ہو جاتے ۔

تفسیر آیات

اس سلسلۂ ہدایت کا ذکر جاری ہے کہ یہ سلسلہ ان مذکورہ ابنیاء علیہم السلام کے آبا و اجداد، ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں کے ذریعے جاری رہا ہے، جن کو اس عظیم مقصد کے لیے برگزیدہ کیا اور ہدایت سے نوازا ہے۔

۱۔ آبا کے بارے میں فرمایا: وَ اتَّبَعۡتُ مِلَّۃَ اٰبَآءِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ ۔۔۔۔ (۱۲ یوسف: ۳۸)

۲۔ اولاد کے بارے میں فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ (۳ آل عمران: ۳۳)

۳۔ بھائی کے بارے میں فرمایا: ہٰرُوۡنَ اَخِی اشۡدُدۡ بِہٖۤ اَزۡرِیۡ (۲۰ طٰہٰ : ۳۰۔ ۳۱)

یہاں قابل توجہ نکتہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت و رہبری کی مسؤلیت کو ایک خاص سلسلہ نسب میں رکھا ہے۔ یہ سلسلہ نسل ابراہیمیؑ سے خارج نہیں رکھا۔ ان کے بارے میں فرمایا:

وَ جَعَلۡنَا فِیۡ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَ الۡکِتٰبَ ۔۔۔ (۲۹ عنکبوت: ۲۷)

اور ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی۔۔۔۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بار امانت کو اٹھانے کے لیے وراثتی اور تربیتی اثرات کو دخل حاصل ہے۔ اسی وجہ سے سلسلہ امامت و رہبری، انہی کے آبا و اجداد، اولاد و ذریت اور بھائی بندی سے باہر نہیں ہے۔

اَللّٰہُ اَعۡلَمُ حَیۡثُ یَجۡعَلُ رِسَالَتَہٗ ۔۔۔۔۔۔۔ ( ۶ انعام: ۱۲۴)

اللہ (ہی) بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں رکھے۔

ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ: دوسری آیت میں فرمایا: یہ ہے اللہ کی ہدایت، جس سے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے نوازے۔

وَ لَوۡ اَشۡرَکُوۡا: ہدایت و رہنمائی اور امامت و رہبری کے اس منصب پر فائز رہنا، توحید پرستی کے ساتھ مشروط ہے۔ اس لیے آیت کے آخر میں فرمایا: اگر یہ لوگ شرک کا ارتکاب کریں گے تو ان کے تمام اعمال حبط اورضائع ہو جائیں گے۔

اہم نکات

۱۔ انبیاء و رہبران دین آپس میں قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں: وَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ ۔۔۔۔

۲۔ منصب الٰہی کے لیے موحد ہونا ضروری ہے، موروثی نہیں ہے: وَ لَوۡ اَشۡرَکُوۡا لَحَبِطَ ۔۔۔۔

۳۔ منصب الٰہی توحید پرستوں میں موروثی ہے: وَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ وَ اِخۡوَانِہِمۡ ۔۔۔۔


آیات 87 - 88