آیات 89 - 90
 

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحُکۡمَ وَ النُّبُوَّۃَ ۚ فَاِنۡ یَّکۡفُرۡ بِہَا ہٰۤؤُلَآءِ فَقَدۡ وَکَّلۡنَا بِہَا قَوۡمًا لَّیۡسُوۡا بِہَا بِکٰفِرِیۡنَ﴿۸۹﴾

۸۹۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی، اب اگر یہ لوگ ان کا انکار کریں تو ہم نے ان پر ایسے لوگ مقرر کر رکھے ہیں جو ان کے منکر نہیں ہیں۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقۡتَدِہۡ ؕ قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا ؕ اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٰی لِلۡعٰلَمِیۡنَ﴿٪۹۰﴾

۹۰۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت سے نوازا ہے تو آپ بھی انہی کی ہدایت کی اقتدا کریں،کہدیجئے: میں اس (تبلیغ قرآن) پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، یہ تو عالمین کے لیے فقط ایک نصیحت ہے۔

تفسیر آیات

کتاب: ان انبیاء میں سے اگرچہ سب پر کتاب نازل نہیں ہوئی، تاہم ہر نبی پر بذریعہ وحی جو احکام نازل ہوئے تھے، ان کو صحائف انبیاء کہتے ہیں۔

حکم: اس سے مراد شریعت اور اس کے مطابق صادر ہونے والے فیصلے ہیں۔ چنانچہ فرمایا:

وَ اَنۡزَلَ مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ فِیۡمَا اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ ۔۔۔۔۔ (۲ بقرہ :۲۱۳)

اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے۔۔۔۔

چنانچہ کتاب نازل کرنے کا مقصد انسانوں کو ایک دستور اور آئین دینا ہے اور انبیاء علیہم السلام اس کے نفاذ کے لیے آئے ہیں:

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا التَّوۡرٰىۃَ فِیۡہَا ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۚ یَحۡکُمُ بِہَا النَّبِیُّوۡنَ الَّذِیۡنَ اَسۡلَمُوۡا لِلَّذِیۡنَ ہَادُوۡا ۔۔۔ (۵ مائدہ: ۴۴)

ہم نے توریت نازل کی جس میں ہدایت اور نور تھا، اطاعت گزار انبیاء اس کے مطابق یہودیوں کے فیصلے کرتے تھے ۔۔۔۔

لہٰذا اگرچہ کتاب و شریعت بعض انبیاء کو دی ہیں، لیکن نبوت کے ساتھ حکم، یعنی نفاذ شریعت اور لوگوں میں فیصلہ صادر کرنے کا حق تمام انبیاء کو دیا ہے:

وَ کُلًّا اٰتَیۡنَا حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا ۔۔۔۔ (۲۱ انبیاء : ۷۹)

اور ہم نے دونوں کو حکمت اور علم عطا کیا۔۔۔۔

وَ لُوۡطًا اٰتَیۡنٰہُ حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا ۔۔۔ (۲۱ انبیاء : ۷۴)

اور لوط کو ہم نے حکمت اور علم عطا کیا۔۔۔۔

اس کے بعد فرمایا: اگر یہ لوگ، مشرکین مکہ، انکار کریں تو ہم نے ایسے لوگوں کو مقرر کر رکھا ہے جو ان کا انکار نہیں کریں گے۔ اس جملے میں رسول خداؐ کو یہ بشارت دی جا رہی ہے کہ کفار مکہ کی طرف سے ایمان نہ لانے پر آزردہ خاطر نہ ہوں۔ آپؐ کی یہ زحمتیں بارآور ثابت ہوں گی۔ ہم نے اس دین کو قائم رکھنے کے لیے ایسی قوم اور ایسی جماعت تیار کر رکھی ہے جس سے کفر صادر ہونے کا تصور نہیں ہو سکتا۔

۱۔ لَّیۡسُوۡا بِہَا بِکٰفِرِیۡنَ: مفسرین نے اس قوم کے بارے میں مختلف مؤقف اختیار کیا ہے۔ مگر سیاق آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں وہ سب اہل ایمان شامل ہیں جو رسالتمآبؐ کی نبوت پر من حیث المجموع ایمان لانے والے ہیں، جو کہ کفر کے مقابلے میں مذکور ہونے کی وجہ سے بظاہر یہی معنی مراد ہو سکتے ہیں۔ لَّیۡسُوۡا بِہَا بِکٰفِرِیۡنَ سے اس قوم کے ایمان کامل کا عندیہ ملتا ہے۔ لہٰذا وہ لوگ اس آیت میں شامل ہو سکتے ہیں جو اس رسالت کی محافظت اور شریعت کے امین ہیں۔

۲۔ فَبِہُدٰىہُمُ اقۡتَدِہۡ: اس کے بعد حضورؐ کے لیے حکم ہوتا ہے کہ وہ ان انبیاء کی راہ پر چلیں، ان کی اقتدا کریں۔ یعنی تبلیغ رسالت، منکرین سے جہاد، مصائب و آلام میں صبر وغیرہ میں اقتدا کریں، نہ ان انبیاء پر نازل ہونے والے ہر حکم کی اقتدا، جیسا کہ کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔

۳۔ قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا: آخر میں اپنی بے غرضی کے اعلان کا حکم ہوا کہ کہدیجیے میں اس تبلیغ و ہدایت پر کوئی اجر نہیں مانگتا۔ یہ تو ایک الٰہی نعمت اور انسانی نصیحت ہے، خود تمہاری اور اہل عالم کی نجات کے لیے۔

اہم نکات

۱۔ پیغام قرآن کی حفاظت کے لیے ایک امین جماعت موجود ہے جو ہر قسم کے کفر سے پاک ہے: قَوۡمًا لَّیۡسُوۡا بِہَا بِکٰفِرِیۡنَ ۔۔۔۔

۲۔ اسلام کا پیغام عالمین پر محیط ہے: اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٰی لِلۡعٰلَمِیۡنَ ۔۔۔۔


آیات 89 - 90