آیات 84 - 86
 

وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ ؕ کُلًّا ہَدَیۡنَا ۚ وَ نُوۡحًا ہَدَیۡنَا مِنۡ قَبۡلُ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیۡمٰنَ وَ اَیُّوۡبَ وَ یُوۡسُفَ وَ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿ۙ۸۴﴾

۸۴۔اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عنایت کیے، سب کی رہنمائی بھی کی اور اس سے قبل ہم نے نوح کی رہنمائی کی تھی اور ان کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کی بھی اور نیک لوگوں کو ہم اسی طرح جزا دیتے ہیں،

وَ زَکَرِیَّا وَ یَحۡیٰی وَ عِیۡسٰی وَ اِلۡیَاسَ ؕ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿ۙ۸۵﴾

۸۵۔اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس کی بھی، (یہ) سب صالحین میں سے تھے۔

وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ الۡیَسَعَ وَ یُوۡنُسَ وَ لُوۡطًا ؕ وَ کُلًّا فَضَّلۡنَا عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۸۶﴾

۸۶۔ اور اسماعیل، یسع، یونس اور لوط (کی رہنمائی کی) اور سب کو عالمین پر فضیلت ہم نے عطا کی ۔

تفسیر آیات

اِسۡحٰقَ: حضرت ابراہیمؑ کے صاحبزادے،جو ان کے بڑھاپے میں پیدا ہوئے۔ بقول بعض جب اسحاق (ع) پیدا ہوئے تو حضرت ابراہیمؑ کی عمر ایک سو بارہ سال تھی اور ان کی والدہ حضرت سارہ کی عمر ننانوے سال تھی۔

یَعۡقُوۡبَ: حضرت ابراہیمؑ کے پوتے، حضرت اسحاق ؑ کے صاحبزادے۔ آپؑ کو اسرائیل بھی کہتے ہیں ا ور بنی اسرائیل آپؑ کی طرف منسوب ہیں۔

نُوۡحًا: آپؑ پہلے صاحب شریعت نبی ہیں۔ توریت کے مطابق حضرت ابراہیمؑ سے گیارہ پشتوں کا فاصلہ ہے۔ آپؑ کا وطن عراق کی سرزمین تھا۔ تخمیناً آپؑ کا زمانہ ۱۹۹۸؁ سے ۲۹۴۸؁ قبل مسیح تک سمجھا گیا ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس آیت کے مفسر حضرات نہایت اطمینان سے لکھتے ہیں کہ یہاں حضرت نوح ؑ کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ حضرت ابراہیمؑ کی نسبی شرافت و طہارت کا بیان ہو جائے:

فہو لبیان نعم اللہ علیہ فی افضل اصولہ تمہیداً لبیان نعمہ علیہ من فروعہ ۔ (المنار ۷:۵۷۶)

اللہ کی ان نعمتوں کا بیان، جو ان کے افضل ترین آبا و اجداد کی وجہ سے انہیں حاصل ہے، اولاد کی نعمتوں کے بیان کی تمہید کے طور پر ہو رہا ہے۔

تفسیر مراغی میں اس جگہ لکھا ہے :

واخرجہ من اصلاب اباء طاہرین کنوح و ادریس و شیث فہو کریم الاباء شریف الابناء ۔ (تفسیر مراغی ۷: ۱۸۱)

حضرت ابراہیمؑ کو پاکیزہ آبا و اجداد سے پیدا کیا، جیسے نوح، ادریس اور شیث علیہم السلام۔ لہٰذا آپ باکرامت آبا و اجداد کے فرزند اور باشرافت اولاد کے باپ ہیں۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ گیارہویں پشت کے جد اعلیٰ کی طہارت قابل فخر ہے لیکن معاذ اللہ ایک کافر باپ کی صلب سے پیدا ہونا طہارت کے منافی نہیں ہے۔

امامیہ کا مؤقف ہمیشہ یہ رہا ہے کہ تمام انبیاء، کریم الآباء و شریف الابناء ہیں۔

دَاوٗدَ: آپؑ کے والد کا نام یسی بتاتے ہیں۔ بنی اسرائیل کے ایک متوسط خاندان سے ابھرے، جالوت پر فتح حاصل کرنے کے بعد اپنی قوم میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ بعد میں تخت بادشاہی پر متمکن ہوئے۔ تقریباً ۹۶۲؁ قبل مسیح وفات پائی ۔

سُلَیۡمٰنَ: انبیاء میں سب سے عظیم الشان بادشاہ، جن کے دور میں بنی اسرائیل تانبے کی صنعت میں داخل ہوئے، جب کہ حضرت داؤدؑ کے دور میں لوہے اور زرہ سازی کے دور میں داخل ہو چکے تھے۔ چنانچہ خلیج عقبہ کے شمال میں تل الحلیضہ کی کھدائی میں وہ بھٹیاں نکلی ہیں جو لوہے اور تانبے کی ڈھلائی کے لیے بنائی گئی تھیں، جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے:

وَ اَسَلۡنَا لَہٗ عَیۡنَ الۡقِطۡرِ ۔۔۔۔۔ (۳۴ سبا: ۱۲)

اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا۔۔۔۔

اَیُّوۡبَ: آپؑ عرب قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؑ صبر کے لیے مثال بن گئے۔ آپؑ کے زمانے کا اندازہ پندرہ یا سولہ صدی قبل مسیح کا لگایا گیا ہے۔

یُوۡسُفَ: آپؑ کنعان یعنی فلسطین میں پیدا ہوئے۔ بعد مصر کے بادشاہ ہوئے۔ آپؑ کے زمانے کا ۱۷۰۰ تا ۱۹۱۰ قبل مسیح کا اندازہ لگایا گیا ہے۔

زَکَرِیَّا: بنی اسرائیل کے نبی، حضرت مسیح (ع) کے خالو۔ انہوں نے بڑھاپے میں بیٹے کے لیے دعا کی اور قبول ہوئی اور حضرت یحییٰ (ع) پیدا ہوئے۔

یَحۡیٰی: انجیل میں ا ن کا نام یوحنا آیا ہے۔ ۳۰ ء ؁ میں وفات پا گئے۔

اِلۡیَاسَ: ان کو توریت میں ایلیاہ کا نام دیا گیا ہے۔

الۡیَسَعَ: الیشع کی تعریب ہے۔ قاعدۃً عبرانی شین کو عربی میں سین سے تبدیل کرتے ہیں۔

یُوۡنُسَ: نینوا یعنی موجودہ عراقی موصل کے پیغمبر۔ آپؑ کا زمانہ ۷۴۱ تا ۷۸۱ قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔

لُوۡطًا: لوط بن ہاران ۔ آپ حضرت ابراہیمؑ کے بھتیجے تھے۔ بحر لوط یا بحر مردار کے کنارے آپؑ کی امت آباد تھی، جو عذاب الٰہی سے ہلاک ہو گئی۔ کہتے ہیں یہ ۲۰۶۱ ؁قبل مسیح کا واقعہ ہے۔

مباحث:

۱۔ ذُرِّیَّتِہٖ کی ضمیر نوح (ع) کی طرف ہے یا ابراہیمؑ کی طرف، اس میں تردد ہے۔ قریب ہونے اور بعض مذکورہ انبیاء کے حضرت ابراہیمؑ کی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ممکن ہے یہ ضمیر نوح (ع)کی طرف جائے اور چونکہ سلسلہ کلام حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں ہے، لہٰذا ان کی اولاد کا ذکر ہے تو ضمیر کا ابراہیمؑ کی طرف جانا زیادہ مناسب ہے۔

۲۔ ان ذریتوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی ذکر ہے، خواہ ضمیر نوح طرف جائے یا ابراہیم علیہما السلام کی طرف جائے۔ یہ بات اس امر پر دلیل ہے کہ دختر کی اولاد کو بھی ذریت کہنا صحیح ہے۔ یعنی نواسے بھی ذریت میں شمار ہوئے ہیں۔

چنانچہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے حجاج بن یوسف کے سامنے اس آیت اور آیہ مباہلہ سے حسنین علیہم السلام کے ذریت رسولؐ ہونے پر استدلال کیا اور اس طرح امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے بھی ہارون رشید کے سامنے اس آیت سے استدلال کیا کہ ہم ذریت رسول ہیں۔ سنن ترمذی کتاب المناقب میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حسنین علیہما السلام کے بارے میں فرمایا:

َہذَانِ ابْنَایَ وَابْنَا ابْنَتِی، اللَّھُمَّ إِنِّی أُحِبُّھُمَا فَأَحَبَّہُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّھُمَا ۔ ( سنن ترمذی ۱۲: ۲۳۹، مناقب الحسن و الحسین علیہما السلام۔ مسند طیالسی ۱: ۳۳۲۔ حدیث نافع بن جبیر بن مطعم۔۔۔۔ ناصر الدین البانی نے صحیح ترمذی میں اسے حدیث حسن قرار دیا ہے۔)

یہ دونوں میرے بیٹے اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ خدایا میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں پس تم بھی ان دونوں سے محبت کر اور جو ان دونوں سے محبت کرے، اس سے محبت کرتا ہوں۔

المنار میں آیا ہے کہ بخاری نے حضرت ابوبکر کی یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہؐ نے حضرت حسن کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ان ابنی ہذا سید ۔ میرا یہ بیٹا سید و سردار ہے۔ ابو نعیم کی روایت کتاب معرفۃ الصحابۃ میں مذکور ہے:

و کل ولد آدم فان عصبتہم لابیہم خلا ولد فاطمۃ فانی انا ابوہم و عصبتہم۔ (معرفۃ الصحابۃ ۱: ۲۳۱، باب کل سبب ونسب ۔۔۔۔ المعجم الکبیر للطبراني ۳: ۴۴، باب حسن بن علی بن أبی طالب علیہم السلام )

تمام اولادِ آدم کی رشتہ داری باپ کی طرف سے ہے، سوائے اولاد فاطمہ کے کہ میں ان کا باپ ہوں۔

علامہ طباطبائی رضوان اللہ علیہ المیزان میں اس آیت کی بحث روایت میں فرماتے ہیں:

یہاں لفظی بحث نہیں ہے کہ لفظ ذریت، دختر کی اولاد کو بھی شامل ہے یا نہیں بلکہ یہ تو ایک قانونی مسئلہ ہے، جس میں مختلف اقوام، مختلف مؤقف رکھتی ہیں۔ مثلاً زمان جاہلیت میں منہ بولے کو قرابتدار سمجھتے تھے اور بیٹی کی اولاد کو صرف خونی رشتہ دار سمجھتے تھے۔ قانونی نہیں سمجھتے تھے۔ (المیزان ۷:۲۶۳)

اسلام نے منہ بولے بیٹے کو قانونی حیثیت نہیں دی اور فرمایا:

وَ مَا جَعَلَ اَدۡعِیَآءَکُمۡ اَبۡنَآءَکُمۡ ۔۔۔۔ (۳۳ احزاب: ۴)

اور نہ ہی تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے (حقیقی) بیٹے بنایا۔۔۔۔

اور عورت کو قرابتداروں میں داخل کیا اوراسے قانونی حیثیت دی اور بیٹیوں کی اولاد کو بھی ان کی اولاد قرار دیا اور فرمایا:

یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ ٭ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۔۔۔ (۴ نساء: ۱۱)

اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔

اور فرمایا:

لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ ۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ ۔۔۔ (۴ نساء: ۷)

جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں مردوں کا ایک حصہ ہے اور (ایسا ہی) جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں تھوڑا ہو یا بہت عورتوں کا بھی ایک حصہ ہے۔

اور محرمات نکاح کے سلسلہ میں فرمایا:

حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمۡ اُمَّہٰتُکُمۡ وَ بَنٰتُکُمۡ ۔۔۔ (۴ نساء: ۲۳)

تم پر حرام کر دی گئی ہیں تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں۔۔۔۔

اس آیت میں بَنٰتُکُمۡ میں نواسی کو بھی بیٹی کہا ہے اور بیٹیوں کی اولاد کو اولاد کہا گیا ہے۔ یہ قانونِ وارثت میں ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ (المیزان: ۷: ۲۶۳)

اہم نکات

۱۔ نوح (ع) پہلے صاحب شریعت نبی ہیں۔

۲۔ ان آیات میں ہدایت کے اہم ارکان کا ذکر آیا۔


آیات 84 - 86