آیت 75
 

وَ کَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لِیَکُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِنِیۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔اور اس طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کا (نظام) حکومت دکھاتے تھے تاکہ وہ اہل یقین میں سے ہو جائیں۔

تشریح کلمات

مَلَکُوۡتَ:

( م ل ک ) مُلک سے ہے۔ جیسے رھبہ سے رہبوت، جبر سے جبروت۔ اس میں تا زائدہ ہے۔ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی سلطنت کے ساتھ مخصوص ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کا نظارہ کیا جاتا ہے، قطع نظر اس سے کہ آسمان و زمین کس کی مملکت و سلطنت کا حصہ اور کس کی ملکیت ہیں۔ مثلاً کوئی شخص وسیع و عریض باغات کا نظارہ کرتا ہے اور ان کے حسن و وسعت سے متعجب اور محفوظ ہوتا ہے لیکن اسے یہ نہیں معلوم کہ یہ باغات کس کے ہیں اور ان باغات کے حسن و خوبی میں کس کی کرشمہ سازی ہے۔ آسمان و زمین اس قسم کے نظارے ہر بصارت رکھنے والا کرتا ہے۔

۲۔ ایک نظارہ اس لحاظ سے ہوتا ہے کہ یہ آسمان و زمین کس کی ملکیت اور کس کی سلطنت کا حصہ ہیں۔ اس مالک اور اس حاکم کی طرف توجہ جاتی ہے جس کی مملکت کا یہ حصہ اور جس کی کرشمہ سازی سے اس مملکت میں یہ رعنائیاں نظر آ رہی ہیں۔ اس صورت میں جیسے جیسے اس مملکت کی وسعت، حسن اور رعنائی نظر آئے گی، اس ذات کی امیری، بے نیازی اور حاکمیت اس کے ذہن پرمنقش ہوتی جائے گی۔

۳۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو صرف آسمانوں اور زمین کا نظارہ نہیں کرایا بلکہ ان کا ملکوتی نظارہ کرایا کہ یہ سب کس کی ملکیت ہے، ان پر کس کی سلطنت ہے اور یہ سب کس کی کرشمہ سازی ہے۔

۲۔ وَ لِیَکُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِنِیۡنَ: اولو العزم انبیاء کو اللہ تعالیٰ ایمان بالغیب کے ساتھ ایمان بالشہود کے درجہ پر فائز فرماتا ہے تاکہ ان کا ایمان ایسا ہو، جیسا اپنے وجود پر ایمان ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کو ملکوتی سیر کرائی اور آسمانوں اور زمین میں اللہ کی سلطنت کا مشاہدہ کرایا تو یہ مشاہدہ سمعی و بصری نہیں ہے کہ جس میں کسی غلطی کا ایک فیصد بھی احتمال آ سکتا ہو، بلکہ شہود کے اس مقام پر پہنچانا مقصود تھا کہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اللہ کی سلطنت کو ذہن میں راسخ کیا جائے تاکہ یقین کے اس مقام پر فائز ہو جائے کہ آتش نمرود میں جاتے ہوئے جبرئیل امین جیسے مقتدر فرشتے کی مدد کو ناقابل اعتنا سمجھے۔

چنانچہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی افق اعلیٰ کی سیر کرائی اور اللہ کی بڑی سے بڑی نشانیاں دکھائیں۔ یہ نشانیاں کسی حواس کے ذریعہ نہیں بلکہ اپنے پورے وجود کے ساتھ دیکھ لیں کہ عقل و مشاہدہ دونوں سے بھی بالاتر مرتبہ ایقان پر فائز ہو جائیں۔

مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی (۵۳نجم: ۱۱)

جو کچھ (نظروں نے) دیکھا اسے دل نے نہیں جھٹلایا۔

مزید تفصیل کے لیے سورہ بقرہ آیت۲۶۰ ملاحظہ فرمائیں۔


آیت 75