آیت 74
 

وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصۡنَامًا اٰلِہَۃً ۚ اِنِّیۡۤ اَرٰىکَ وَ قَوۡمَکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۷۴﴾

۷۴۔اور جب ابراہیم نے اپنے باپ (چچا) آزر سے کہا: کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو؟ میں تمہیں اور تمہاری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھ رہا ہوں۔

تشریح کلمات

اٰزَرَ:

توریت میں یہ نام تارخ آیا ہے۔ اس کا انگلش تلفظ TERAH ہے۔ آزر کی وجہ تسمیہ کے بارے میں یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ آزر، نمرود کے بتوں کے خزانے کا انچارج تھا اور ماہرین کے مطابق فینق Phoenic زبان میں بعل بت کے مجاور کو آزر بعل کہتے تھے۔ آزر کو شاہی دربار میں اہم مقام حاصل ہونے، خصوصاً بتوں کی ذمے داری ان پر عائد ہونے اور اپنا رشتہ دار ہونے کی وجہ سے حضرت ابراہیمؑ نے بت پرستی کے خلاف جہاد کا آغاز انہی سے کیا۔ چنانچہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے بھی روایت ہے کہ آزر، نمرود کا وزیر اور دارالاصنام (بتکدہ) کا انچارج تھا۔ (تفسیر قمی ۱: ۲۰۷، ولادۃ ابراہیم علیہ السلام۔ ۔نور الثقلین ۱: ۷۳۷)

بہر حال اس لفظ کے بارے میں درج ذیل اقوال ہیں:

i۔ حضرت ابراہیم خلیلؑ کے باپ کا نام ہے یا ان کا لقب ہے۔

ii۔ حضرت ابراہیمؑ کے چچا کانام ہے۔

iii۔ حضرت ابراہیمؑ کے نانا کا نام ہے۔

iv۔ ایک بت کانام ہے۔

v۔ آزر کا لفظ ایک قسم کا سب و شتم ہے۔ اس کے معنی ہوں گے: اے کج سلیقہ یا اے نافرمان۔

vi۔ یہ فارسی کا لفظ ہے، اس کے معنی ہیں عمررسیدہ بوڑھا۔

vii۔ ابراہیمؑ کے دادا کا نام ہے۔ (ملاحظہ ہو تفسیر قرطبی ۷: ۲۲۔ سورہ انعام: ۷۵۔ عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری ۱۵:۲۴۰ کتاب احادیث الانبیاء علیہم السلام، باب قول اللّٰہ تعالی واتخذ ۔۔۔،۔ فتح القدیر ۲: ۱۳۳ )

تفسیر آیات

ابوالانبیاء حضرب ابراہیم (ع)، جو توحیدی تحریکوں کے قافلہ سالار ہیں، کا واقعہ اس لیے بیان ہو رہا ہے کہ اس تحریک کے مکّی ارکان اور ان کے قافلہ سالار کو یہ باور کرایا جائے کہ جن حالات میں آج مشرکوں، بت پرستوں اور جاہلوں کے ساتھ آپؐ کا مقابلہ ہے، اس سے سخت تر حالات میں حضرت ابراہیم (ع) نے یہ جہاد شروع کیا اور بالآخر کامیابی حاصل ہو گئی۔

دوسری بات یہ ہے کہ عرب مشرکین حضرت ابراہیمؑ کو اپنا جد اعلیٰ ہونے کے حوالے سے اپنا پیشوا مانتے تھے اور اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا وارث تصور کرتے تھے۔ حضرت ابراہیمؑ کا عقیدہ توحید بیان کر کے ان کے اس خیال کو باطل ثابت کرنا مقصود ہے۔ دین خلیل کے وارث محمد مصطفیؐ ہیں، نہ کہ مشرکین۔ حضرت ابراہیمؑ نے تبلیغ کی ابتدا اپنے باپ آزر سے کی اور نہایت تحقیری انداز میں فرمایا: کیا تم بتوں کو اپنا معبود بناتے ہو؟ اس انداز گفتگو میں اس بات پر طنز و تمسخر ہے کہ جس بت کو تم خود تراشتے ہو، اس کو معبود بناتے ہو یا دوسرے لفظوں میں تم اپنی اس مخلوق کی پوجا کرتے ہو؟

آزر کے بارے میں یہ اختلاف ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا باپ تھا یا چچا۔ قرآن نے یہاں لفظ اَبْ استعمال فرمایا ہے کہ ابراہیمؑ نے اپنے اَبْ (باپ) سے کہا۔ باپ کے لیے عربی میں دو الفاظ استعمال ہوتے ہیں:

اَبْ ، جو حقیقی باپ، چچا اور ناناکے لیے استعمال کرتے ہیں، جو ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ چنانچہ چچا کے لیے لفظ اَبْ کا استعمال قرآن میں موجود ہے کہ حضرت یعقوبؑ نے اپنی اولاد سے کہا: تم میرے بعد کس کی پرستش کرو گے؟ اولاد یعقوبؑ نے جواب میں کہا: نَعۡبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚۖ وَّ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ ۔ (۲ بقرہ:۱۳۳) اس آیت میں حضرت اسماعیلؑ کو آباء میں شامل کیا گیا ہے جو اولاد یعقوب کے چچا ہیں۔ اس آیت میں دادا کے لیے بھی لفظ اَبْ استعمال ہوا ہے۔ رسول اللہؐ کا یہ فرمان بھی مشہور ہے: رَدُّوا عَلَیَّ أَبِي الْعَبَّاسِ ۔ (متشابہ القرآن لابن شہر آشوب ۱: ۲۲۳۔ تفسیر الآلوسی ۴: ۱۸۵، باب ۷۴۔ سورہ بقرۃ آیت ۱۳۳ کے ذیل میں آلوسی رقمطراز ہیں:’’ محمد بن کعب قرظی سے منقول ہے کہ ماموں اور چچا کو بھی والد کہتے ہیں جس پر دلیل سورہ بقرۃ کی آیت ۱۳۳ ہے۔‘‘ مندرج بالا حدیث بھی ان افراد کے دعویٰ کی تقویت کا باعث ہے جن کا نظریہ ہے کہ ابراہیمؑ کے والد کافر نہ تھے بلکہ ان کے چچا کافر تھے۔) میرے باپ عباس کو میرے پاس واپس لے آؤ۔ یعنی حضورؐ نے اپنے چچا عباس کو باپ کہا ہے۔

ii۔ والد، جو صرف حقیقی باپ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس آیت میں اَبْ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو حقیقی باپ بھی ہو سکتا ہے، چچا وغیرہ بھی۔ خود اس آیت میں ایسی کوئی دلیل یا قرائن نہیں ہیں جن سے سے ہم یہ سمجھ سکیں کہ اس اَبْ سے مراد چچا ہے لیکن القرآن یفسر بعضہ بعضاً ۔ قرآن اپنی تفسیر خود کرتا ہے، اس لیے ہم خود قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں:

۱۔ قرآن مشرکین کے لیے استغفار سے منع فرماتا ہے۔ چنانچہ سورہ توبہ میں فرمایا:

مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ یَّسۡتَغۡفِرُوۡا لِلۡمُشۡرِکِیۡنَ وَ لَوۡ کَانُوۡۤا اُولِیۡ قُرۡبٰی مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُمۡ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ وَ مَا کَانَ اسۡتِغۡفَارُ اِبۡرٰہِیۡمَ لِاَبِیۡہِ اِلَّا عَنۡ مَّوۡعِدَۃٍ وَّعَدَہَاۤ اِیَّاہُ ۚ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗۤ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنۡہُ ؕ اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیۡمٌ (۹ توبہ : ۱۱۳ ۔ ۱۱۴)

نبی اور ایمان والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مشرکوں کے لیے مغفرت طلب کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جب کہ یہ بات ان پر عیاں ہو چکی ہے کہ وہ جہنم والے ہیں اور (وہاں) ابراہیم کا اپنے باپ (چچا) کے لیے مغفرت طلب کرنا اس وعدے کی وجہ سے تھا جو انہوں نے اس کے ساتھ کر رکھا تھا لیکن جب ان پر یہ بات کھل گئی کہ وہ دشمن خدا ہے تو وہ اس سے بیزار ہو گئے، ابراہیم یقینا نرم دل اور بردبار تھے۔

دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۔۔۔۔۔ (۴ نساء: ۴۸)

اللہ اس بات کو یقینا معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ (کسی کو) شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ دیگر گناہوں کو جس کے بارے میں وہ چاہے گا معاف کر دے گا۔

۲۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کی وفات کے بعد مصر گئے۔ حضرت ہاجرہ سے عقد ہوا۔ پھر اس کے بعد جب اسماعیل و اسحاق علیہما السلام پیدا ہوئے تو آپؑ عمر رسیدہ ہو چکے تھے:

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ وَہَبَ لِیۡ عَلَی الۡکِبَرِ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ (۱۴ ابراہیم: ۳۹)

ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے عالم پیری میں مجھے اسماعیل اور اسحاق عنایت کیے۔

اس کے بعد اسماعیل جوان ہوئے اور تعمیر کعبہ میں حضرت ابراہیمؑ کا ہاتھ بٹانے لگے تو اس وقت حضرت ابراہیم (ع) نے اپنے ماں باپ کے لیے لفظ والدین کے ساتھ دعا کی اور فرمایا:

رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ (۱۴ ابراہیم: ۴۱)

اے ہمارے رب! مجھے اور میرے والدین اور ایمان والوں کو بروز حساب مغفرت سے نواز۔

اس میں شک و تردد کی گنجائش نہیں کہ یہ دعا ان کے والدین کی وفات کے بعد کی گئی ہے۔ تعجب کا مقام یہ ہے کہ کچھ مفسرین کو حضرت ابراہیمؑ کے والد کو کافر و مشرک ثابت کرنے کے لیے اَبْ سے مراد حقیقی باپ ہونے پر اصرار ہے، جب کہ اگر اس آیت میں لفظ والدین سے ان کا ایمان ثابت ہوتا ہے تو تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں: یہاں والدین سے مراد حضرت نوح (ع) یا حضرت آدم (ع) و حوا ہیں۔ ( روح المعانی ۱۳: ۲۴۳)

جناب دریابادی صاحب اس آیت کی اس طرح توجیہ کرتے ہیں:

حضرت کا اپنے لیے اور مؤمنین کے حق میں دعا کرنا تو ایک صاف اور سیدھی سی بات ہے۔ البتہ شبہ اس میں پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے کافر والد کے حق میں دعائے مغفرت کیسے کر دی؟ سو اگر یہ دعا آپ نے ان کی زندگی ہی میں کی تھی، جب تو آپ کی مراد یہی ہو گی کہ انہیں توفیق ہدایت دے کر ان کی مغفرت کا سامان کر دیا جائے اور اگر بعد وفات یہ دعا کی تھی تو یہ دعا ان کے ایمان کے ساتھ (علم الٰہی میں) مشروط ہو گی۔ یعنی اے پروردگار اگر تیرے علم میں ان کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہے تو ان کی مغفرت کر دے۔

آپ نے دیکھا اس آیت سے والد خلیل کا ایمان ثابت ہوتا دیکھ کر گھبراگئے کیونکہ وہ اس سے پہلے زیر بحث آیت کے ذیل میں یہ عبارت لکھ چکے تھے:

ایک گمراہ فرقہ اپنے مخصوص عقائد کے تحفظ و پشت پناہی کی خاطر شروع سے یہ کہتا آ رہا ہے کہ آزر حضرت ابراہیم خلیلؑ کے والد نہیں چچا کا نام تھا اور حال کے ایک آدھ جدید گمراہ فرقے بھی یہی کہہ رہے ہیں لیکن ان میں سے کسی کے پاس بھی دلیل کے نام سے کوئی چیز نہیں۔ رہے بعض احتمالات و امکانات، یہ توقطعی سے قطعی مسئلہ میں بھی پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ اَبْ کو اس کے بالکل کھلے ہوئے ظاہری معنی سے ہٹا کر مجازی استعمال کی طرف لے جانے کے لیے آخر کوئی معقول وجہ بھی تو ہو۔

معقول وجہ تو آپ نے اوپر کی تاویل میں ملاحظہ فرمائی۔ نہ معلوم کن عقائد کے تحفظ و پشت پناہی کی خاطر حضرت خلیلؑ کے والد کو کافر بناتے ہیں بلکہ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول خداؐ نے کسی کے سوال کے جواب میں فرمایا:

ان ابی و اباک فی النار ۔ (صحیح مسلم ۱: ۱۳۲ کتاب الایمان، باب ۹۰ بیان أن من مات علی الکفر ۔۔۔۔)

میرا باپ اور تیرا باپ دونوں جہنم میں ہیں۔

جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

لم أزل أنقل من أصلاب الطاھرین إلی أرحام المطھرات ۔ (بحار الانوار ۱۵: ۱۱۷۔ ایمان ابی طالب للفخار، ص ۵۷)

میں پاکیزہ صلبوں سے پاکیزہ رحموں کی طرف منتقل ہوتا رہا ہوں۔

حضرت خلیلؑ کے والد کے کافر نہ ہونے پر تو آئمہ اہل بیت علیہم السلام کا اجماع ہے۔ بعض اہل سنت علماء بھی اس مسئلہ میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے ہم خیال ہیں۔ مفتی محمد شفیع صاحب اپنی تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں:

امام رازی اور علمائے سلف میں سے ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارخ اور چچا کا نام آزر ہے۔ ان کا چچا آزر، نمرود کی وزارت کے بعد شرک میں مبتلا ہوگیا تھا اور چچا کو اَبْ کہنا عربی محاورات میں عام ہے ۔ اسی محاورہ کے تحت آیت میں آزر کو حضرت ابراہیمؑ کا اَبْ فرمایا گیا۔

زرقانی نے شرح مواہب میں اس کے کئی شواہد بھی نقل کیے ہیں اور روح المعانی میں آلوسی نے سورہ انعام آیت ۷۴ کے ذیل میں اس مسئلہ میں مذکورہ تمام دلائل کو ذکر کرتے ہوئے اجماعِ اہل بیتؑ ؑ سے اتفاق کیا ہے اور رازی کے اس قول کو عدم دقت کا نتیجہ قرار دیا ہے کہ آزر کو حضرت ابراہیمؑ کا چچا کہنا شیعوں کا نظریہ ہے بلکہ یہ ثابت کیا ہے اہل سنت میں ایک جم غفیر ابراہیمؑ کے والد کو مومن اور چچا آزر کو کافر جانتا ہے جس پر قرآنی کریم کی آیات دلالت کرتی ہیں۔ (روح المعانی، ۴: ۱۸۵۔ انعام: ۷۴)

اَتَتَّخِذُ اَصۡنَامًا اٰلِہَۃً: کیا تو ایک شعور و ارادے کا مالک انسان بے حس بتوں کو معبود بناتا ہے؟ حضرت ابراہیمؑ کے ایک سوالیہ جملے میں بت پرستی کو ایک طعنہ ایک ننگ و عار قرار دیا گیا ہے۔

اہم نکات

۱۔ تحریک انبیاء میں تبلیغ کا سلسلہ قریبی رشتہ داروں سے شروع ہوتا ہے: لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ ۔۔۔

۲۔ عقیدے و نظریے کا رشتہ دوسرے تمام رشتوں پر مقدم ہے: اِنِّیۡۤ اَرٰىکَ وَ قَوۡمَکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۔

۳۔ بت پرستی کا نام لینا ہی اس کی نامعقولیت کے لیے کافی ہے: اَتَتَّخِذُ اَصۡنَامًا اٰلِہَۃً ۔۔۔۔


آیت 74