آیات 76 - 79
 

فَلَمَّا جَنَّ عَلَیۡہِ الَّیۡلُ رَاٰ کَوۡکَبًا ۚ قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ﴿۷۶﴾

۷۶۔چنانچہ جب ابراہیم پر رات کی تاریکی چھائی تو ایک ستارہ دیکھا، کہنے لگے: یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غروب ہو گیا تو کہنے لگے: میں غروب ہو جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

فَلَمَّا رَاَ الۡقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَئِنۡ لَّمۡ یَہۡدِنِیۡ رَبِّیۡ لَاَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡقَوۡمِ الضَّآلِّیۡنَ﴿۷۷﴾

۷۷۔پھر جب چمکتا چاند دیکھا تو کہا: یہ میرا رب ہے اور جب چاند چھپ گیا تو بولے: اگر میرا رب میری رہنمائی نہ فرماتا تو میں بھی ضرور گمراہوں میں سے ہو جاتا۔

فَلَمَّا رَاَ الشَّمۡسَ بَازِغَۃً قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ہٰذَاۤ اَکۡبَرُ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَتۡ قَالَ یٰقَوۡمِ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِکُوۡنَ﴿۷۸﴾

۷۸۔پھر جب سورج کو جگمگاتے ہوئے دیکھا تو بولے:یہ میرا رب ہے یہ سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو کہنے لگے:اے میری قوم! جن چیزوں کو تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو میں ان سے بیزار ہوں ۔

اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿ۚ۷۹﴾

۷۹۔ میں نے تو اپنا رخ پوری یکسوئی سے اس ذات کی طرف کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔

تشریح کلمات

جَنَّ:

( ج ن ن ) کے اصل معنی کسی چیز کو حواس سے پوشیدہ کرنے کے ہیں۔ جنہ اللیل اسے رات نے چھپا لیا۔

الافول:

( ا ف ل ) کے معنی ماہتاب اور نجوم وغیرہ کے غروب ہونے کے ہیں۔ بزغ الشمس کے معنی سورج کا طلوع ہونا ہے، جب کہ اس کی روشنی پھیل رہی ہو۔

تفسیر آیات

ہٰذَا رَبِّیۡ: عصر ابراہیم علیہ السلام کے مشرکین کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ نے کائنات کی تدبیر مختلف دیوتاؤں کے سپرد کر رکھی ہے۔ لہٰذا بندے کو چاہیے کہ وہ ان دیوتاؤں کے ذریعے اللہ تک رسائی اور اللہ کی قربت حاصل کرے۔ تازہ ترین کھدائیوں سے جو کتبے ملے ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں ہر شہر کا دیوتا جدا ہوتا تھا اور اس کو رب البلد کہتے تھے۔ یہ دیوتا کسی ستارے یا چاند، سورج سے مربوط سمجھا جاتا تھا۔ مثلاً چاند دیوتا کو ننّار اور سورج دیوتا کو شماش کہتے تھے۔ اس طرح ہر قوم ہر قبیلہ کا اپنا دیوتا ہوتا تھا۔ لوگ انہی سے اپنی تقدیر وابستہ سمجھتے تھے۔ لہٰذا انہی سے اپنی حاجتیں مانگتے اور تمام مراسم عبادات انہی کے آگے بجا لاتے تھے۔ ان کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں ان کے چھوٹے دیوتا ہوتے تھے۔ اب تک پانچ ہزار خداؤں کے نام ملے ہیں۔

کلدانیوں کے آثار قدیمہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سب سے بڑے رب کو ایل یا اِل کہتے تھے اور یہ ان کا رب الارباب ہوتا تھا، جس کی کوئی تصویر یا مجسمہ نہیں بناتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ رب صفاتِ مخلوق اور ان کے تخیلات سے بالاتر تھا۔ بظاہر یہ عقیدہ انہیں حضرت نوح(ع) سے وراثت میں ملا ہے۔

قوم ابراہیمؑ کی ستارہ پرستی کا تصور کچھ اس طرح تھا کہ سورج بادشاہوں کی تدبیر امور کرنے والا، ان میں شجاعت اور پیش قدمی کی روح پھونکنے والا ہے۔ شاہوں کے لشکر کو فتح، ان کے دشمنوں کو شکست دینے والا رب ہے۔ ستارہ زحل کو بینی کا نام دیتے تھے۔ اس کی خاصیت بھی تقریباً یہی تھی۔ ستارہ مشتری کو مرداخ کہتے تھے اور اسے بڑا رب کہتے تھے، جو عدل و انصاف کا رب ہے۔ ستارہ مریخ کو انکال کہتے تھے۔ یہ شکار اور جنگوں کا رب ہے۔ ستارہ زہرہ کو عشتار کہتے تھے اور یہ سعادت و خوشحالی کا رب ہے۔ آثار قدیمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زہرہ سے منسوب بت ایک برہنہ عورت کی شکل میں ہے اور عطارد کو نبو کہتے تھے اور یہ علم و حکمت کا رب ہے۔

علم نجوم کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کا یہ فرمان جامع و قاطع ہے:

ایہا الناس ایاکم و تعلم النجوم الا ما یھتدی بہ فی بر او بحر فانھا تدعو الی الکھانۃ والمنجم کالکاہن و الکاہن کالساحر والساحر کالکافر والکافر فی النار ۔۔۔۔ (نہج اللاغۃ خ ۷۹ )

اے لوگو! نجوم کے سیکھنے سے پرہیز کرو مگر اتنا کہ جس سے خشکی اور تری میں راستے معلوم کر سکو۔ اس لیے کہ نجوم کا سیکھنا کہانت اور غیب گوئی کی طرف لے جاتا ہے اور منجم حکم میں مثل کاہن کے ہے اور کاہن مثل ساحر کے ہے اور ساحر مثل کافر کے ہے اور کافر کا ٹھکانا جہنم ہے۔۔۔

ایسے ماحول میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک بے مثال عقلی و فکری صلاحیت کے ساتھ توحید کی دعوت شروع کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ رُشۡدَہٗ مِنۡ قَبۡلُ وَ کُنَّا بِہٖ عٰلِمِیۡنَ (۲۱ انبیاء: ۱)

اور بتحقیق ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے عقل کامل عطا کی اور ہم اس کے حال سے باخبر تھے۔

اسی رشد و فہم کی وجہ سے حضرت ابراہیمؑ کے لیے ایسے بت پرستانہ ماحول میں توحید کا پرچم بلند کرنا ممکن ہوا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اس دعوت میں حکیمانہ انداز اختیار کرتے ہوئے لوگوں کے اس عقیدہ سے فائدہ اٹھایا کہ انسانی امور کی تدبیر کسی طاقت کے ہاتھ میں ہے اور اسی کو رب تسلیم کر لینا چاہیے۔ اس رب کی تلاش اور تشخیص میں فوراً اپنا مؤقف بیان نہیں فرماتے بلکہ چند قدم ان سادہ لوح بت پرستوں کے ساتھ چلتے ہیں اور انہی کے ایک بلند رتبہ رب، ایک ستارے، زہرہ یا مشتری کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں: ہٰذَا رَبِّیۡ اس وقتی مؤقف اور فرضی نظریے سے بت پرستوں کی مذہبی حمیت اور نظریاتی تعصب کو چھیڑے بغیر ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہیں۔

فَلَمَّاۤ اَفَلَ: جب یہ ستارہ ڈوب جاتا اور نظروں سے غائب ہو جاتا ہے، دوسرے لفظوں میں مزعومہ رب اپنے بندوں کو بے سہارا چھوڑ کر پس پردہ چلا جاتا ہے، حضرت ابراہیمؑ لوگوں کو اس رب کی بے مہری کی طرف متوجہ کرتے ہیں: لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ ۔ مجھے غائب ہونے والے پسند نہیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس بارے میں لوگوں کا یہ نظریہ تھا کہ جب ستارے طلوع ہوتے ہیں تو طاقتور ہوتے ہیں اور جب غروب ہوتے ہیں تو کمزور ہو جاتے ہیں۔ ممکن ہے اسی نظریے کے مطابق فرمایا ہو کہ میں کمزوروں سے محبت نہیں کرتا۔ ایسا رب مجھے پسند نہیں ہے، جو کمزوری کی وجہ سے چھپ جاتا ہے کیونکہ رب اور مربوب کے درمیان محبت ہی کا رشتہ ہوتا ہے:

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَنۡدَادًا یُّحِبُّوۡنَہُمۡ کَحُبِّ اللّٰہِ ۔۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۱۶۵)

اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا مدمقابل قرار دیتے ہیں اور ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنی چاہیے۔

امام جعفر صادق (ع) سے روایت ہے:

وَ ہَلِ الدِّینُ اِلاَّ الْحُبُّ۔ ( اصول الکافی ۸: ۷۹۔ المستدرک للحاکم ۲: ۳۱۹ تفسیر سورۃ آل عمران)

کیا دین محبت کے علاوہ کسی اور چیز کا نام ہے؟

حضرت ابراہیم علیہ السلام براہ راست اس محبت کو نشانہ بناتے ہیں جس پر یہ عقیدہ قائم ہے اور فرماتے ہیں: لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ میں غائب ہونے والوں سے محبت نہیں کرتا۔

جب چاند طلوع ہوتا ہے تو پھر اسی استدرا جی طرز استدلال کو اختیار فرماتے ہیں کہ ستارہ نہ سہی، چمکتا چاند میرا رب ہے۔ جب چاند بھی اپنے بندوں کو بے سہارا چھوڑ کر ڈوب جاتا ہے اور وہی بے رخی اختیار کرتا ہے تو اس بار حضرت ابراہیمؑ نے اپنے حقیقی رب کی اس طرح نشاندہی کی: لَئِنۡ لَّمۡ یَہۡدِنِیۡ رَبِّیۡ لَاَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡقَوۡمِ الضَّآلِّیۡنَ ۔ اگر میرا رب میری رہنمائی نہ فرماتا تو میں بھی گمراہوں میں سے ہو جاتا۔

جب سورج نے طلوع کیا تو وہی طرز استدلال اختیار کیا اور فرمایا: یہ تو کافی بڑا ہے، یہی میرا رب ہے۔ جب سورج نے بھی بے اعتنائی برتی اور ڈوب گیا۔ ڈوب جانے اور غائب ہو جانے کے امر میں ستارہ چاند اور سورج سب کو یکساں پایا تو دیکھا ان میں سے کوئی ایک بھی رب بننے کے قابل نہیں ہے۔ یہاں پر آمدم برسر مطلب کے طور پر کہا: اے قوم جن چیزوں کو تم اللہ کے شریک بناتے ہو، ان سے میں بیزار ہوں۔ اب حضرت ابراہیمؑ نے ان ارباب کو اس مقام پر پہنچایا کہ ان سے اعلان برائت کیاجائے۔

سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ کیا اس خاص واقعہ سے پہلے ان چیزوں کے طلوع و غروب دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا؟ جواب یہ ہے کہ ان چیزوں کے طلوع و غروب کا مشاہدہ تو روز کرتے تھے، مگر ان باتوں سے استدلال کسی مناسب موقع پر کیا ہے۔

دوسرا سوال یہ اٹھاتے ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ نے ان چیزوں کے رب ہونے کا اقرار، خواہ وقتی ہی کیوں نہ ہو، کیسے کر لیا؟

جواب: اسے اقرار نہیں کہتے بلکہ یہ بات ستارہ پرستی کی رد کے لیے ایک تمہید ہے۔ یہ ایسا ہے جیسا کہ حضور کے لیے حکم ہوا:

قُلۡ اِنۡ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدٌ ٭ۖ فَاَنَا اَوَّلُ الۡعٰبِدِیۡنَ (۴۳ زخرف : ۸۱)

کہدیجیے: اگر رحمن کی کوئی اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے (اس کی) عبادت کرنے والا ہوتا۔

آخر میں بتایا کہ ساری امیدیں صرف خالق ارض و سما کے ساتھ وابستہ کرنی چاہئیں، نہ ستاروں اور بتوں کے ساتھ۔

تفسیر عیاشی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے۔ راوی کہتا ہے: میں نے امامؑ سے پوچھا کہ حضرت ابراہیمؑ نے ہٰذَا رَبِّیۡ کیسے کہدیا؟ فرمایا:

لم یبلغ بہ شیئا اراد غیر الذی قال ۔ (بحار الانوار ۱۱ : ۸۸)

اس سے کوئی امر واقع بیان کرنا مقصود نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد کچھ اور تھا۔

اہم نکات

۱۔ رب وہ ہوتا جو ہمیشہ حاضر و ناظر ہو: لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ ۔۔۔۔

۲۔ دین ابراہیمی دلیل و استدلال کا دین ہے۔ اندھی تقلید کا نہیں۔

۳۔ تعقل و تدبر ہی سے حق طلبی ہوتی ہے، تعصب و تنگ نظری سے نہیں۔

۴۔ دعوت انبیاء میں مخالف کی دل آزاری نہیں ہوتی، بلکہ اس کو قریب لانے کی کوشش ہوتی ہے: ہٰذَا رَبِّیۡ ہٰذَاۤ اَکۡبَرُ ۔


آیات 76 - 79