آیات 46 - 47
 

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَخَذَ اللّٰہُ سَمۡعَکُمۡ وَ اَبۡصَارَکُمۡ وَ خَتَمَ عَلٰی قُلُوۡبِکُمۡ مَّنۡ اِلٰہٌ غَیۡرُ اللّٰہِ یَاۡتِیۡکُمۡ بِہٖ ؕ اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ ثُمَّ ہُمۡ یَصۡدِفُوۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔کہدیجئے:(کافرو) مجھے بتاؤ کہ اگر اللہ تمہاری سماعت اور تمہاری بصارت تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہیں یہ (چیزیں) عطا کرے؟ دیکھو ہم کس طرح اپنی آیات بیان کرتے ہیں پھر بھی یہ لوگ منہ موڑ لیتے ہیں۔

قُلۡ اَرَءَیۡتَکُمۡ اِنۡ اَتٰىکُمۡ عَذَابُ اللّٰہِ بَغۡتَۃً اَوۡ جَہۡرَۃً ہَلۡ یُہۡلَکُ اِلَّا الۡقَوۡمُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ کہدیجئے: بھلا مجھے بتاؤ کہ اگر اللہ کا عذاب تم پر اچانک یا علانیہ طور پر آ جائے تو کیا ظالموں کے سوا کوئی ہلاک ہو گا؟

تشریح کلمات

اَرَءَیۡتُمۡ:

ارأیت ۔ اخبرنی کے معنوں میں آتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنۡ اَخَذَ اللّٰہُ سَمۡعَکُمۡ نفی شریک پر ایک اور دلیل: یہ کہ اگر اللہ کے علاوہ کوئی اور ذات بھی موجود ہو جو اللہ کے ساتھ دفع ضرر اور جذب منفعت میں مؤثر ہو تو یہ دیکھ لو کہ تمہاری آنکھوں اور کان کی قوت بصارت و سماعت اگر اللہ چھین لے تو پتھر کے یہ بت تمہیں یہ چیزیں واپس دلا سکیں گے؟ اگر نہیں دلا سکتے تو اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے ان پتھروں کو کیوں شفیع اور مؤثر سمجھتے ہو اور اپنے آپ کو ظالموں میں شامل کر کے ہر آنے والے عذاب کا نشانہ کیوں بنتے ہو۔

۲۔ اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ تصریف کا مطلب یہ ہے کہ مطلب کو ایسے قالب میں ڈھالنا کہ سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ یَصۡدِفُوۡنَ الصدوف منہ موڑنے کو کہتے ہیں۔

۳۔ اِنۡ اَتٰىکُمۡ عَذَابُ یہ تو بتلاؤ! عذاب اچانک آئے یا اعلانیہ، ہر صورت میں اس عذاب میں مبتلا ہونے والے، ظالم لوگ ہی ہوں گے۔

۴۔ ہَلۡ یُہۡلَکُ عذاب جرم کی سزا ہے اور جرم کا جامع لفظ ظلم ہے۔ پس سزا اسی کو ملے گی جس نے جرم کیا ہے۔ یعنی ظالمین کو۔

اہم نکات

۱۔ جو ذات مؤثر فی الوجود نہ ہو، باذن اللہ نہ ہو، اس سے لو لگانا شرک ہے۔

۲۔ ظالم کا انجام ہمیشہ عبرتناک ہوتا ہے۔


آیات 46 - 47