آیات 44 - 45
 

فَلَمَّا نَسُوۡا مَا ذُکِّرُوۡا بِہٖ فَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ اَبۡوَابَ کُلِّ شَیۡءٍ ؕ حَتّٰۤی اِذَا فَرِحُوۡا بِمَاۤ اُوۡتُوۡۤا اَخَذۡنٰہُمۡ بَغۡتَۃً فَاِذَا ہُمۡ مُّبۡلِسُوۡنَ﴿۴۴﴾

۴۴۔پھر جب انہوں نے وہ نصیحت فراموش کر دی جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر طرح (کی خوشحالی) کے دروازے کھول دیے یہاں تک کہ وہ ان بخششوں پر خوب خوش ہو رہے تھے ہم نے اچانک انہیں اپنی گرفت میں لے لیا پھر وہ مایوس ہو کر رہ گئے۔

فَقُطِعَ دَابِرُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ؕ وَ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۴۵﴾

۴۵۔اس طرح ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور ثنائے کامل اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔

تشریح کلمات

مبلس:

( ب ل س ) البلاس کے معنی سخت ناامیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ فَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ اَبۡوَابَ کُلِّ شَیۡءٍ جب ان سختیوں اور مصیبتوں سے بھی ان کی فطرت بیدار نہ ہوئی تو ہم نے ان کو نعمتوں سے مالا مال کر دیا۔ اس مرتبہ مضمون بدل جاتا ہے۔ سختی کی جگہ آسائش آ جاتی ہے، جس سے ان کے غرور میں اور اضافہ ہو جاتا اور سرکشی بڑھ جاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آسائش انہیں جہنم کی طرف لے جانے کا پیش خیمہ ہے۔

۲۔ اَخَذۡنٰہُمۡ بَغۡتَۃً اچانک ان کو اللہ اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اس صورت میں پتہ چلتا ہے کہ خوشحالی کی آزمائش، بد حالی کی آزمائش سے زیادہ سنگین ہوتی ہے اور یہ آخری آزمائش ہوتی ہے۔

چنانچہ ان آزمائشوں میں مؤمن خوشحالی میں شکر اور بد حالی میں صبر کرتا ہے اور غیر مؤمن خوشحالی میں اتراتا ہے اور بد حالی میں صبر نہیں کرتا:

ذٰلِکَ ۫ وَ بَلَوۡنٰہُمۡ بِالۡحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ (۷ اعراف: ۱۶۸)

اور ہم نے آسائشوں اور تکلیفوں کے ذریعے انہیں آزمایا کہ شاید وہ باز آ جائیں۔

فَقُطِعَ دَابِرُ الۡقَوۡمِ آسائش کی آزمائش میں ناکامی کے بعد اس مجرم قوم کو نابود کر دیا۔

اہم نکات

۱۔ کوئی مجرم و بدکار اگر ناز و نعمت میں ہے تو یہ اس کے لیے عذاب الیم کا پیش خیمہ ہے۔ (حدیث رسولؐ )

۲۔ کوئی مؤمن ناز و نعمت میں ہے تو یہ اس کی شکرگزاری کا دنیا میں صلہ ہے۔


آیات 44 - 45