آیات 63 - 64
 

وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَکُمۡ وَ رَفَعۡنَا فَوۡقَکُمُ الطُّوۡرَ ؕ خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّ اذۡکُرُوۡا مَا فِیۡہِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ﴿۶۳﴾

۶۳۔اور ( وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تم سے عہد لیا اور تمہارے اوپر (کوہ) طور کو بلند کیا (اور تمہیں حکم دیا کہ) جو (کتاب) ہم نے تمہیں دی ہے اسے پوری قوت سے پکڑ رکھو اور جو کچھ اس میں موجود ہے اسے یاد رکھو (اس طرح) شاید تم بچ سکو۔

ثُمَّ تَوَلَّیۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ ۚ فَلَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ لَکُنۡتُمۡ مِّنَ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔پھر اس کے بعد تم پلٹ گئے۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو تم گھاٹے میں ہوتے۔

تشریح کلمات

الطُّوۡرَ:

پہاڑ کو طورکہتے ہیں اور سینا کے کوہستانی سلسلے میں سے ایک پہاڑ کا نام بھی طور ہے۔

تفسیرآیات

عہد و میثاق کا ذکر پہلے بھی گزر چکا ہے۔ کوہ طور کو بنی اسرائیل کے سروں پر بلند کرنے کا واقعہ قران میں تفصیل سے مذکور نہیں۔ قرآن میں اس واقعے کی طرف مختصر اشارہ ملتا ہے:

وَ اِذۡ نَتَقۡنَا الۡجَبَلَ فَوۡقَہُمۡ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ وَّ ظَنُّوۡۤا اَنَّہٗ وَاقِعٌۢ بِہِمۡ {۷ اعراف: ۱۷۱}

اور (یہ بات بھی یاد کرو) جب ہم نے پہاڑ کو ان کے اوپر اس طرح اٹھایا گویا وہ سائبان ہو اور انہیں یہ گمان تھا کہ وہ ان پر گرنے ہی والا ہے۔۔۔۔

بنی اسرائیل کے سروں پر پہاڑ کو معلق کرنے کی غرض و غایت بیان نہیں ہوئی۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی عظمت و قوت کا اظہار کرنا چاہا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ کی نشانی اور معجزے کے طور پر ان پر حجت پوری کی ہو۔ کیونکہ اس کے فوراً بعد خُذُوۡا کا حکم ملتا ہے۔ گویا کہا جا رہا ہے کہ حکم خدا اور دستور الہٰی کو اپنی پوری معنوی اور مادی طاقت کے ساتھ اخذ کرو، جس طاقت سے معجزے اور حجت کا اظہار ہوا ہے۔ یعنی جس طاقت سے حجت پوری ہوتی ہے، اسی حساب سے مسؤلیت اور ذمہ داری بھی سنگین ہو جاتی ہے۔

لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ شاید تم بچ سکو۔ لَعَلَّ کے معنی ہیں ’ شاید ‘۔ یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے استعمال ہوتا ہے تواس کا مفہوم ’ شک و ترد د‘ نہیں ہوتا کیونکہ خداوند عالم پوری کائنات کے اسرار و رموز سے واقف ہے اور عواقب امور کاعلم رکھتا ہے، بلکہ اللہ اپنی پسندیدہ چیز کے لیے لَعَلَّ کا لفظ استعمال فرماتا ہے نیز اس مقام پر لَعَلَّ کا استعمال مخاطب اور محل کلام کی مناسبت سے ہے کہ مخاطب کے لیے یا محل کلام میں غیر خدا کے لیے لَعَلَّ کی گنجائش ہے۔ بنابریں اگرچہ متکلم کسی قسم کے شک و تردد میں مبتلا نہ ہو، پھر بھی یہ لفظ اس وقت استعمال کر سکتا ہے جب مخاطب کو شک ہو یا محل کلام میں شک و تردد کی گنجائش ہو۔ جیسا کہ اس مقام پر بنی اسرائیل کا تقویٰ اختیارکرنا چونکہ محل شک و تردد ہے، یعنی ان کا بیشتر کردار تقویٰ اور خدا ترسی سے عاری رہا ہے، لہٰذا لَعَلَّ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

اہم نکات

۱۔ حجت پوری ہونے کے بعد انکار کرنے پر عذاب کا نہ آنا، اللہ کے فضل رحمت کی بنا پر ہے: فَلَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ ۔۔۔۔

تحقیق مزید: الوسائل ۱ : ۵۲


آیات 63 - 64