آیت 62
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ النَّصٰرٰی وَ الصّٰبِئِیۡنَ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۪ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۶۲﴾

۶۲۔ بے شک جو لوگ ایمان لا چکے ہیں اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صابئین میں سے جو کوئی اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے تو ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

تشریح کلمات

یہودی:

حضرت یعقو ب(ع) کے بڑے یا چوتھے بیٹے کا نام یہوذا بتایا جاتا ہے۔ اس سے بارہ خاندان ظہور پذیر ہوئے جو حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے دور میں متحد رہے، لیکن حضرت سلیمان (ع) کے بعد ان میں اختلاف پیدا ہوا اور وہ دو حصوں میں بٹ گئے۔ ایک یہودا اور دوسرا بنی اسرائیل کے نام سے موسوم ہوا۔

بعد میں جب دوسری اقوام ان پر غالب آگئیں اور یہ لوگ محکوم اور اسیر بن گئے تو ان کا مشترکہ نام یہود استعمال ہونے لگا۔ اسلام سے صدیوں قبل یہ نام زبان زد خلائق ہو گیا تھا۔

علاوہ ازیں ممکن ہے کہ عبرانی لفظ یہوذا عربی میں بطور تخفیف یہود بولا گیا ہو، جیسا کہ عبرانی زبان کے شین کا تلفظ عربی میں سین سے کیا جاتا ہے۔ جیسے موشی کو موسی کہا گیا ہے۔ لہٰذا اس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ قرآن مجید نے یہود کا نام غلط طریقے سے بیان کیا ہے۔

قرآن نے مادہ ( ھ و د ) کو مختلف صورتوں میں بیان کیا ہے۔ ھادوا، ھود، یہود۔

بعض حضرات نے عربی لغت کے لحاظ سے ھاد، یہود کا معنی ”توبہ کرنا“ یا ”پلٹنا“ کیا ہے اور پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہودیوں نے گوسالہ پرستی سے توبہ کی تھی یا شریعت موسوی سے انحراف کیا تھا، اس لیے انہیں اس نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ معنی اور تشریح درست نہیں کیونکہ یہود عربی نہیں، بلکہ عبرانی لفظ ہے۔

نصاریٰ:

( ن ص ر ) حضرت عیسیٰ (ع) کی پیروی اور ان کی نصرت کرنے والے۔ یہ لفظ نصران کی جمع ہے۔ جیسے ندمان کی جمع ندامی ہوتی ہے۔

وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اصحاب مسیح (ع) نے حضرت مسیح (ع) کے سوال کے جواب میں نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ {۳ آل عمران : ۵۲}۔ ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ کہا تھا اس لیے اس دین کے پیرو کار نَصرَانی کہلاتے ہیں۔

بعض حضرات کے نزدیک نَصرَانی برخلاف قاعدہ، شہر ناصرہ سے منسوب ہے، جہاں حضرت عیسیٰ (ع) کی والدہ سکونت پذیر تھیں اور وہیں حضرت عیسیٰ (ع) کی پرورش ہوئی۔

صابئین:

یہ لفظ عبری ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ عبری میں یہ صبع تھا، جسے عربی میں صباء کر دیا گیا۔ عبری میں اس کا مطلب ہے ’’پانی کے اندر جانا‘‘ جسے وہ تعمید کہتے ہیں اور جو اس دین کے بنیادی اعمال میں سے ایک ہے۔ عربی میں آخری حرف عین کو ہمزہ سے بدل دیا گیا جس کا معنی ہے ’ دین سے خارج ہونا ‘۔ یہ لوگ اپنے مذہب کو حضرت یحییٰ بن زکریا علیہما السلام سے منسوب کرتے ہیں اور اس وقت عراق اور ایران کے علاقے ”خوزستان“ میں ان کی قلیل تعداد آباد ہے۔

تفسیر آیات

آیۂ شریفہ کا ماحصل یہ بنتا ہے:

اللہ اور روز آخرت پر ایمان لانے والے اور اعمال صالحہ بجا لانے والے خواہ مسلمان ہوں یا یہودی، عیسائی ہوں یا صابی، جس ملت اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، انہیں اجر و ثواب ملے گا۔ ان کے لیے نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ کوئی غم، یعنی اپنے زمانے کے برحق نبی اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کے بعد عمل صالح بجا لانے والا نجات پائے گا۔

شان نزول

حضرت سلمانؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا : میرے ان ساتھیوں کا کیا بنے گا جو اپنے دین پر عمل پیرا تھے اور عبادت گزار تھے؟ اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی۔

ابتدائے اسلام میں یہ سوال بہت سے مسلمانوں کو درپیش تھا کہ دین مسیح کے پیروکاروں کے آبا و اجداد کا انجام کیا ہو گا؟ ان کی تشفی کے لیے یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر وہ اپنے مذہب کے مخلص پیروکار اور عبادت گزار تھے تو نجات پائیں گے۔

اہم نکات

۱۔ ہردور کے اہل ایمان کو دونوں جہانوں میں امن و سکون ملے گا۔ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ


آیت 62