آیت 36
 

فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مُّوۡسٰی بِاٰیٰتِنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوۡا مَا ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّفۡتَرًی وَّ مَا سَمِعۡنَا بِہٰذَا فِیۡۤ اٰبَآئِنَا الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۳۶﴾

۳۶۔ پھر جب موسیٰ ہماری واضح نشانیاں لے کر ان کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگے: یہ تو بس گھڑا ہوا جادو ہے اور ہم نے اپنے اگلے باپ داداؤں سے ایسی باتیں کبھی نہیں سنیں۔

تفسیر آیات

۱۔ معجزات حاصل ہونے اور کامیابی کی نوید سننے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان معجزات کو فرعون کے سامنے پیش کیا تو فرعون اور اس کے درباریوں کا رد عمل وہی رہا جو ہر طاغوت کا ہوا کرتا ہے۔

۲۔ قَالُوۡا مَا ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّفۡتَرًی: باطل جب حق کا مقابلہ کرنے سے عاجز آ جاتا ہے تو الزام و بہتان کا سہارا لیتا ہے۔ حق کے مقابلے میں نہ دلیل پیش کر سکتا ہے، نہ منطق، صرف وہی بہتان کہ یہ تو جادو ہے۔

۳۔ وَّ مَا سَمِعۡنَا بِہٰذَا فِیۡۤ اٰبَآئِنَا الۡاَوَّلِیۡنَ: یہ نعرہ یا تو موجودہ نسل کو گمراہ رکھنے کے لیے لگایا گیا کہ موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی حالانکہ ان سے پہلے حضرات نوح، ہود اور صالح و دیگر انبیاء علیہم السلام کی دعوت تاریخ انسان میں ثبت ہے یا ہم نے ایسی باتیں نہیں سنیں اس لیے کہتے ہوں گے کہ ان کے آبا و اجداد نے بھی دعوت کو رد کیا تھا لہٰذا ان میں توحید کی کوئی روایت موجود نہ تھی۔


آیت 36