آیات 157 - 158
 

فَعَقَرُوۡہَا فَاَصۡبَحُوۡا نٰدِمِیۡنَ﴿۱۵۷﴾ۙ

۱۵۷۔ تو انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں پھر وہ ندامت میں مبتلا ہوئے۔

فَاَخَذَہُمُ الۡعَذَابُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً ؕ وَ مَا کَانَ اَکۡثَرُہُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۵۸﴾

۱۵۸۔ چنانچہ عذاب نے انہیں گرفت میں لے لیا، یقینا اس میں ایک نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے۔

تفسیر آیات

اونٹنی کی کونچیں کاٹنے کے بعد ندامت اس وقت ہوئی ہو گی جب عذاب سامنے آیا۔ کونچیں تو ایک آدمی نے کاٹی تھیں مگر نسبت سب کی طرف دی گئی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ دیگر لوگ اس عمل پر راضی تھے۔ چنانچہ نہج البلاغۃ خطبہ ۲۰۱ میں ارشاد ہے:

َایُّہَا النَّاسُ اِنَّمَا یَجْمَعُ النَّاسَ الرِّضَا وَ السُّخْطُ وَ اِنَّمَا عَقَرَ نَاقَۃَ ثَمُودَ رَجُلٌ وَاحِدٌ فَعَمَّہُمُ اللہُ بِالْعَذَابِ لَمَّا عَمُّوہُ بِالرِّضِا ۔۔۔۔

اے لوگو! (افعال و اعمال چاہے مختلف ہوں مگر) رضا و ناراضگی کے جذبات تمام لوگوں کو ایک حکم میں لے آتے ہیں۔ آخر قوم ثمود کی اونٹنی کو ایک ہی شخص نے پے کیا تھا لیکن اللہ نے عذاب سب پر کیا کیونکہ وہ سارے کے سارے اس پر رضامند تھے۔

فَاَخَذَہُمُ الۡعَذَابُ: چنانچہ کونچیں کاٹنے کے بعد انہیں تین دن کی مہلت دی گئی۔ اس کے بعد عذاب نازل ہوا:

فَعَقَرُوۡہَا فَقَالَ تَمَتَّعُوۡا فِیۡ دَارِکُمۡ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ ۔۔۔۔ (۱۱ ہود: ۶۵)

پس انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں تو صالح نے کہا: تم لوگ تین دن اپنے گھروں میں بسر کرو۔


آیات 157 - 158