آیات 155 - 156
 

قَالَ ہٰذِہٖ نَاقَۃٌ لَّہَا شِرۡبٌ وَّ لَکُمۡ شِرۡبُ یَوۡمٍ مَّعۡلُوۡمٍ﴿۱۵۵﴾ۚ

۱۵۵۔ صالح نے کہا: یہ ایک اونٹنی ہے، ایک مقررہ دن اس کے پانی پینے کی باری ہو گی اور ایک مقررہ دن تمہارے پانی پینے کی باری ہو گی۔

وَ لَا تَمَسُّوۡہَا بِسُوۡٓءٍ فَیَاۡخُذَکُمۡ عَذَابُ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ﴿۱۵۶﴾

۱۵۶۔ اور اسے بری نیت سے نہ چھونا ورنہ ایک بڑے (ہولناک) دن کا عذاب تمہیں گرفت میں لے لے گا۔

تفسیر آیات

طلب معجزہ کے جواب میں فرمایا: ہٰذِہٖ نَاقَۃٌ یہ اونٹنی ہے اور سورۃ الاعراف میں آیت ۷۳ میں فرمایا:

قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ بَیِّنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ ہٰذِہٖ نَاقَۃُ اللّٰہِ لَکُمۡ ۔۔۔۔۔۔

تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل آچکی ہے، یہ اللہ کی اونٹنی ہے جو تمہارے لیے ایک نشانی ہے۔۔۔۔

اس میں صراحت کے ساتھ فرمایا کہ یہ ناقہ ایک معجزہ ہے۔ آیۃ کا لفظ قرآنی اصطلاح میں معجزے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

بعض کے نزدیک اس ناقہ کا معجزہ اس کے پہلو میں تھا کہ اگر اس کو تکلیف دی اور اس کے ساتھ کوئی برا سلوک ہوا تو عذاب نازل ہو گا۔

بعض مفسرین معجزے کا یہ پہلو نکالتے ہیں کہ ان کو یہ حکم ہوا تھا کہ ایک دن ناقہ پانی پیئے اور ایک دن بستی والے۔ یہاں پانی کی قلت تھی اور کنویں کا سارا پانی ایک اونٹنی پی جاتی تھی۔ یہی ان کے لیے ایک امتحان تھا۔

قرآنی تصریحات کے مطابق اس اونٹنی کے بارے میں درج ذیل معلومات سامنے آتی ہیں:

i۔ قوم صالح کی طرف سے معجزہ کے طلب کے جواب میں اونٹنی بطور معجزہ ظاہر ہوئی: فَاۡتِ بِاٰیَۃٍ۔۔۔ ہٰذِہٖ نَاقَۃُ اللّٰہِ لَکُمۡ ۔۔۔(۱۱ ھود:۶۴)

ii۔ اونٹنی اور بستی والے باری باری پانی لیتے تھے: لَّہَا شِرۡبٌ وَّ لَکُمۡ شِرۡبُ ۔۔۔۔

iii۔ اس اونٹنی کو تکلیف پہنچانے کی صورت میں عذاب آئے گا۔

iv۔ چنانچہ اس اونٹنی کی کونچیں انہوں نے کاٹ ڈالیں تو عذاب آگیا۔

ان نکات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ناقہ معجزانہ طور پر وجود میں آئی تھی۔

اہم نکات

۱۔ ناقہ صالح ایسا معجزہ ہے جو لوگوں کے مطالبے پر دیا گیا تھا اس لیے انکار پر عذاب آیا۔


آیات 155 - 156