آیت 78
 

وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡـِٕدَۃَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ﴿۷۸﴾

۷۸۔ اور اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے لیکن تم پھر بھی کم شکر گزار ہو۔

تفسیر آیات

قرآنی تعلیمات میں جا بجا اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ تخلیق و تدبیر قابل تفریق نہیں ہیں۔ اس آیت میں یہی واضح فرمایا ہے کہ اللہ ہی نے انسانی زندگی جاری رکھنے کے لیے چند ایک چیزیں فراہم فرمائیں۔

۱۔ السَّمۡعَ: قوت سماعت۔ اس قوت کے ذریعے انسان آوازوں کو درک کرتا ہے۔ اگر یہ قوت نہ ہوتی تو انسان بیرونی دنیا سے ان حقائق کا ادراک نہ کر سکتا جو آوازوں سے مربوط ہیں۔ خواہ ان آوازوں میں الفاظ و معانی ہوں یا صرف آواز ہو، دونوں سے استفادہ کرتا ہے۔ پتھر، لوہا، لکڑی دیگر مختلف چیزوں کے ٹکرانے سے انسان سمجھ سکتا ہے کس چیز کی آواز ہے۔ اسی کے مطابق ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ جانوروں میں بیل، بکری، گھوڑا، گدھا، مرغی دیگر مختلف پرندوں کی آوازوں سے استفادہ ہوتا ہے۔

لیکن وہ آواز جو الفاظ و معانی پر مشتمل ہو انسان کے لیے اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے چونکہ اگر یہ آواز اور الفاظ نہ ہوتے تو افہام و تفہیم کا مسئلہ بعض اوقات مشکل اور بعض اوقات ناممکن ہوتا۔ چنانچہ الفاظ نہ ہونے کی صورت میں کسی معنی کو کسی کے ذہن میں منتقل کرنے کے لیے خود معنی کو پیش کرنا پڑتا۔ مثلاً کسی کو پانی بتانا ہو تو خود پانی کو اس کے سامنے پیش کرنا پڑتا۔ اب ہم لفظ کے ذریعے آسانی سے معنی پیش کرتے ہیں اور بعض معانی کا پیش کرنا ممکن نہ ہوتا۔ مثلاً کعبہ پیش کرنا ممکن ہی نہ ہوتا۔ چنانچہ انسان معنی کو لفظ کے ذریعے اور لفظ کو کتابت کے ذریعہ دوسروں کی طرف منتقل کرتا ہے۔

۲۔ وَ الۡاَبۡصَارَ: اس قوت کے ذریعے انسان رنگوں کا ادراک کرتا ہے۔ قوت بصارت اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کا عظیم اور محیر العقول معجزہ ہے جس سے انسان اپنے وجود سے بیرون اشیاء کا ادراک کرتا ہے۔ ان کا رنگ، حجم اور شکل معلوم کرتا ہے۔ اگر بصارت نہ ہوتی تو انسان کائنات کی رعنائیوں کو نہ سمجھ سکتا۔

۳۔ وَ الۡاَفۡـِٕدَۃَ: دل، لغت میں صنوبری شکل کے عضو کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بیرونی دنیا اور عقل کے درمیان حواس خمسہ کے ذریعے روابط قائم کیے ہیں۔ ان میں سرفہرست سماعت اور بصارت ہے۔ چنانچہ ان رابطوں کے بغیر عقل اشیاء کا ادراک نہیں کر سکتی۔ جس چیز کو انسان نے حواس سے درک نہیں کیا ہے اسے عقل نہیں سمجھ سکتی۔ مثلاً اگر پانی کا وجود نہ ہوتا تو عقل پانی کو سمجھنے سے قاصر ہوتی۔ یہاں سے یہ قول مشہور ہے: من فقد حساً فقد علما جس کے پاس حواس میں سے کوئی ایک حس نہیں اس کے پاس اس سے مربوط علم نہیں ہوتا ہے۔

۴۔ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ: یہ ناشکرا انسان نہ صرف ان نعمتوں کا شکر نہیں کرتا بلکہ ان نعمتوں کے وجود کا احساس تک نہیں کرتا جب تک یہ نعمت چھن نہ جائے۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

اعْجَبُوا لِھَذَالْاِنْسَانِ یَنْظُرُ بِشَحْمِ وَ یَتَکَلَّمُ بِلَحْمٍ وَ یَسْمَعُ بِعَظْمٍ ۔۔۔۔ (نہج البلاغۃ۔ حکمت: ۸)

یہ انسان تعجب کے قابل ہے وہ چربی سے دیکھتا ہے اور گوشت کے لوتھڑے سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ انسان کے بیرونی دنیا سے ذرائع روابط (حواس) اللہ کی بڑی نعمت ہے۔


آیت 78