آیت 53
 

فَتَقَطَّعُوۡۤا اَمۡرَہُمۡ بَیۡنَہُمۡ زُبُرًا ؕ کُلُّ حِزۡبٍۭ بِمَا لَدَیۡہِمۡ فَرِحُوۡنَ﴿۵۳﴾

۵۳۔ مگر لوگوں نے اپنے (دینی) معاملات میں تفرقہ ڈال کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اب ہر فرقہ اپنے پاس موجود (نظریات) پر خوش ہے۔

تشریح کلمات

زُبُرًا:

(ز ب ر) یہ لفظ اگر زُبُر بروزن عُنُق ہے تو یہ زبور کی جمع ہے جو کتب کے معنوں میں ہے اور اگر زُبَرْ ( بضم زا و فتح باء ) ہو تو یہ زبرۃ کی جمع ہے جو ٹکڑے کے معنی میں ہے۔ آیت میں یہی معنی مراد ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ ایک قرائت میں بضم با ہے تاہم ایک قرائت بفتح با ہے۔ تقطعوا واضح قرینہ ہے کہ زبر سے مراد ٹکڑے ہیں چونکہ تقطع فعل لازم نہیں بلکہ متعدی ہے چونکہ اَمۡرَہُمۡ مفعول ہے۔ یعنی انہوں نے قَطْعَہ کر دیا اپنے (دینی) امر کو۔

تفسیر آیات

۱۔ فَتَقَطَّعُوۡۤا اَمۡرَہُمۡ: ان لوگوں نے اپنے اپنے رسول کے بعد اپنی امت کی وحدت کو کاٹ دیا اور اس کے بعد یہ امت زُبُرًا ٹکڑوں میں بٹ گئی۔

۲۔ کُلُّ حِزۡبٍۭ بِمَا لَدَیۡہِمۡ فَرِحُوۡنَ: امت کے جسم کو پارہ پارہ کرنے کے بعد جو ٹکڑا جس کے ہاتھ میں آیا اس پر وہ خوش ہے۔ کل امت کے جسم کے بارے میں کوئی دلچسپی نہیں۔

کچھ ہمارے معاصر لوگ اپنے نظریے سے تھوڑا اختلاف کرنے والوں کو اسی لیے تہ تیغ کر دیتے ہیں کہ ان کو امت نہیں، اپنی حزب عزیز ہے۔

اہم نکات

۱۔فرقہ پرستی امت کی نفی ہے۔


آیت 53