آیات 77 - 79
 

وَ نَصَرۡنٰہُ مِنَ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَوۡمَ سَوۡءٍ فَاَغۡرَقۡنٰہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ﴿۷۷﴾

۷۷ ۔ اور اس قوم کے مقابلے میں ان کی مدد کی جو ہماری نشانیوں کی تکذیب کرتی تھی، یقینا وہ برے لوگ تھے چنانچہ ہم نے ان سب کو غرق کر دیا۔

وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیۡمٰنَ اِذۡ یَحۡکُمٰنِ فِی الۡحَرۡثِ اِذۡ نَفَشَتۡ فِیۡہِ غَنَمُ الۡقَوۡمِ ۚ وَ کُنَّا لِحُکۡمِہِمۡ شٰہِدِیۡنَ﴿٭ۙ۷۸﴾

۷۸۔ اور داؤد و سلیمان کو بھی (نوازا) جب وہ دونوں ایک کھیت کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے جس میں رات کے وقت لوگوں کی بکریاں بکھر گئی تھیں اور ہم ان کے فیصلے کا مشاہدہ کر رہے تھے۔

فَفَہَّمۡنٰہَا سُلَیۡمٰنَ ۚ وَ کُلًّا اٰتَیۡنَا حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا ۫ وَّ سَخَّرۡنَا مَعَ دَاوٗدَ الۡجِبَالَ یُسَبِّحۡنَ وَ الطَّیۡرَ ؕ وَ کُنَّا فٰعِلِیۡنَ﴿۷۹﴾

۷۹۔ تو ہم نے سلیمان کو اس کا فیصلہ سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو حکمت اور علم عطا کیا اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو داؤد کے لیے مسخر کیا جو ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے اور ایسا کرنے والے ہم ہی تھے۔

تشریح کلمات

الۡحَرۡثِ:

( ح ر ث ) الحَرث کے معنی زمین میں بیج ڈالنے اور اسے زراعت کے لیے تیار کرنے کے ہیں اور کھیتی کو بھی حرث کہا جاتا ہے۔

نَفَشَتۡ:

( ن ف ش ) نفش الغنم رات کے وقت بکریوں کا بغیر چرواہے کے منتشر ہونا۔

تفسیر آیات

اس آیت کے شان نزول میں روایت ہے کہ ایک شخص کے کھیت میں دوسرے شخص کی بکریاں گھس گئی تھیں۔ حضرت داود علیہ السلام نے فیصلہ دیا کہ بکریاں کھیت والے کو دے دی جائیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فیصلہ دیا کہ بکریوں سے کھیت والا اس وقت تک فائدہ اٹھائے جب تک بکریوں والا اس کھیت کو اسی حالت میں تیار کر کے نہ دے۔ مجمع البیان اور کشاف کی روایت کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام اس وقت گیارہ سال کی عمر میں تھے۔ ممکن ہے اس مسئلہ میں دو نظریے سامنے آئے ہوں۔ ایک حضرت داؤد علیہ السلام کا، دوسرا حضرت سلیمان علیہ السلام کا۔ آخر میں فیصلہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے موقف کے مطابق ہوا ہو۔ اس قصے کو بیان کرنے کا مقصد ممکن ہے یہ ہو کہ عدالتی فیصلوں میں نظر ثانی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اگرچہ پہلا حکم بھی حکم خدا کے مخالف نہ تھا تاہم بہتر فیصلے کی گنجائش رہتی ہے۔

المیزان کے نزدیک یَحۡکُمٰنِ کا مطلب یتشاوران ہے کہ فیصلے سے پہلے باہمی مشورے میں دو نظریے سامنے آئے ہیں ورنہ ایک واقعہ کے دو فیصلے معقول نہیں ہیں۔

۱۔ فَفَہَّمۡنٰہَا سُلَیۡمٰنَ: ’’ہم نے سلیمان کو سمجھایا‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلیمان علیہ السلام کا فیصلہ اللہ کی طرف سے تھا۔ رہا حضرت دادد علیہ السلام کا فیصلہ، اس بارے میں بعض حضرات کہتے ہیں کہ حضرت داود علیہ السلام کا اپنا اجتہاد تھا جو صائب نہ تھا۔ یہاں سے ان حضرات نے یہ موقف بنا لیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے لیے اجتہاد جائز ہے۔

امامیہ کے نزدیک انبیاء علیہم السلام کے لیے اجتہاد جائز نہیں بلکہ اس کی نوبت نہیں آتی کیونکہ انبیاء علیہم السلام کے لیے حکم واقع وحی کے ذریعہ حاصل کرنا ممکن ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اجتہاد یعنی اپنی ذاتی رائے پر عمل کرنا کیسے ممکن ہے۔ امامیہ کے نزدیک اجتہاد (بمعنی ذاتی رائے) پر عمل کرنا امت کے لیے بھی جائز نہیں۔ ( طوسی التبیان ۔ ذیل آیہ)

۲۔ وَ کُلًّا اٰتَیۡنَا حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا: ہم نے ان سب کو حکمت اور علم عطا کیا ہے۔ اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کا فیصلہ حکمت اور علم کے منافی نہیں تھا۔ چنانچہ ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قسم کا ایک فیصلہ کیا جس میں حکم دیا:

علی اہل الاموال حفظہابالنھار و علی اہل الماشیۃ حفظھا باللیل ۔۔۔۔ ( مجمع البیان ذیل آیت)

مویشوں کے مالک کو چاہیے کہ وہ رات کو مویشیوں کو اپنے کنٹرول میں رکھے اور کھیت والا دن میں اپنے کھیت کو بچائے۔

۳۔ وَّ سَخَّرۡنَا مَعَ دَاوٗدَ الۡجِبَالَ یُسَبِّحۡنَ وَ الطَّیۡرَ: حضرت داؤد علیہ السلام کی خوش الحانی کا یہ عالم تھا کہ پہاڑ بھی وجد میں آ جاتے اور ساتھ تسبیح کرتے تھے اور پرندے بھی اس خوش الحانی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔

اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں قرآن کا صریح لفظوں میں اعلان ہے:

وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ ۔۔۔۔ (۱۷ بنی اسرائیل: ۴۴)

اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی ثنا میں تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔

قرآن کی طرف سے لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ کی صراحت کے باوجود کچھ حضرات اس تسبیح کو سمجھنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی خوش الحانی کی وجہ سے پہاڑوں میں ان کی آواز گونجتی تھی حالانکہ پہاڑوں میں تو ہر اونچی آواز گونجتی ہے، صرف داؤد علیہ السلام کی نہیں۔ دوسری بات اس گونجنے کو تسخیر نہیں کہا جاتا۔ اگر پہاڑوں کی تسبیح کی’’گونجنے‘‘ سے توجیہ و تاویل کرتے ہیں تو پرندوں کے لیے کیا تاویل کریں گے؟

وَ کُنَّا فٰعِلِیۡنَ: پہاڑوں اور پرندوں کو تسخیر میں دینے والا اللہ ہے۔ اللہ کی قدرت کاملہ کے بارے میں کسی قسم کی تاویل قابل قبول نہیں ہے۔ بعض اہل تحقیق کے مطابق وَّ سَخَّرۡنَا مَعَ دَاوٗدَ الۡجِبَالَ میں لفظ مَعَ سے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ پہاڑ حضرت کے لیے مسخر نہیں تھے بلکہ تسبیح کے لیے مسخر تھے ورنہ سخرنا لداؤد فرماتے۔

اہم نکات

۱۔ تسبیح اگر قلب سے نکلے تو قلب فطرت کو مسخر کرتی ہے۔


آیات 77 - 79