آیات 87 - 89
 

قَالُوۡا مَاۤ اَخۡلَفۡنَا مَوۡعِدَکَ بِمَلۡکِنَا وَ لٰکِنَّا حُمِّلۡنَاۤ اَوۡزَارًا مِّنۡ زِیۡنَۃِ الۡقَوۡمِ فَقَذَفۡنٰہَا فَکَذٰلِکَ اَلۡقَی السَّامِرِیُّ ﴿ۙ۸۷﴾

۸۷۔ انہوں نے کہا: ہم نے آپ سے وعدہ خلافی اپنے اختیار سے نہیں کی بلکہ ہوا یہ کہ ہم پر قوم کے زیورات کا بوجھ لادا گیا تھا تو ہم نے اسے پھینک دیا اور سامری نے بھی اس طرح ڈال دیا۔

فَاَخۡرَجَ لَہُمۡ عِجۡلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ فَقَالُوۡا ہٰذَاۤ اِلٰـہُکُمۡ وَ اِلٰہُ مُوۡسٰی ۬ فَنَسِیَ ﴿ؕ۸۸﴾

۸۸۔ اور ان کے لیے ایک بچھڑے کا قالب بنا کر نکالا جس میں گائے کی سی آواز تھی پھر وہ بولے: یہ ہے تمہارا معبود اور موسیٰ کا معبود پھر وہ بھول گیا۔

اَفَلَا یَرَوۡنَ اَلَّا یَرۡجِعُ اِلَیۡہِمۡ قَوۡلًا ۬ۙ وَّ لَا یَمۡلِکُ لَہُمۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا﴿٪۸۹﴾

۸۹۔ کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ (بچھڑا) ان کی کسی بات کا جواب تک نہیں دے سکتا اور وہ نہ ان کے کسی نفع اور نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہے۔

تشریح کلمات

بِمَلۡکِنَا:

( م ل ک ) ملک اختیار کے معنوں میں ہے۔

جَسَدًا:

( ج س د ) اس ڈھانچے کو کہتے ہیں جس میں جان نہ ہو۔

خُوَارٌ:

( خ و ر ) یہ لفظ گائے بیل کی آواز کے ساتھ مختص ہے۔

تفسیر آیات

بنی اسرائیل کا جواب یہ تھا: ہم نے یہ جرم اپنے اختیار سے نہیں کیا۔ ہم نے قصداً گوسالہ نہیں بنایا۔ ہم نے تو صرف اپنے زیورات کو جمع کرایا تھا جسے سامری نے بھٹے میں ڈال دیا۔

آیت میں لوگوں کے عمل کو قذف اور سامری کے عمل کو اَلۡقَی کہا ہے۔

قذف دور پھینکنے کے معنوں میں ہے اور اَلۡقَی ڈالنے کے معنوں میں ہے۔ اس سے ایک یہ عندیہ ملتا ہے کہ لوگوں کے عمل اور سامری کے عمل میں فرق تھا۔ لوگوں نے نہ معلوم کس غرض سے زیوارت پھینکے تھے بہرحال گوسالہ بنانے کا قصد نہیں تھا۔ مگر سامری کا قصد تھا۔

حُمِّلۡنَاۤ اَوۡزَارًا مِّنۡ زِیۡنَۃِ الۡقَوۡمِ: قوم سے مراد مصری قوم لی جاتی ہے کہ بنی اسرائیل نے مصر سے نکلتے ہوئے اپنے پڑوسیوں سے زیورارت مانگے اور اپنے ساتھ کافی زیورات لوٹ کر لائے تھے۔ بائبل کے مطابق ان کو ایسا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ملاحظہ ہو بائبل باب ۳ آیت ۱۴۔ ۲۲

فَاَخۡرَجَ لَہُمۡ عِجۡلًا: پھر ان کے لیے گو سالہ کا قالب بنا کر نکالا۔ فَاَخۡرَجَ لَہُمۡ کس چیز سے نکلا ہو گا کوئی صراحت نہیں ہے۔ ممکن ہے قالب سے یا بٹھے سے گوسالہ کی شکل میں نکالا ہو۔

لَّہٗ خُوَارٌ: اس کی بیل کی سی آواز تھی۔ اس بچھڑے کی مورت کو دیکھ کر لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا: ہٰذَاۤ اِلٰـہُکُمۡ وَ اِلٰہُ مُوۡسٰی ۬ فَنَسِیَ یہ ہے تمہارا اور موسیٰ کا معبود۔ جب سوال پیدا ہوا کہ اگر یہ موسیٰ کا معبود ہے تو موسیٰ کوہ طور پر کس معبود کے پیچھے گئے ہیں؟ جواب دیا گیا: فَنَسِیَ وہ بھول گئے ہیں کہ اصل معبود کہاں ہے۔

اسباب ہدایت و اسباب ضلالت میں تقابل: بنی اسرائیل نے ایک عرصہ حضرت موسیٰ کی تعلیم اورمعجزات کے ساتھ گزارا:

i۔ توحید کی تعلیم دی اور عبادت کا عملی نمونہ پیش کیا۔

ii۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات میں گو سالہ پرستی یا بت پرستی کی نفی موجود تھی۔

iii۔ حضرت ہارون علیہ السلام جیسے حجت خدا ان کے درمیان موجود تھے۔

iv۔ نو کی تعداد میں عظیم معجزات دکھائے گئے تھے۔

ایک خُوَارٌ نو معجزات:لیکن یہ تمام تعلیمات، تربیت اور معجزات ایک بیل کی آواز کے مقابلے میں غیر موثر ثابت ہو گئے۔

یہ بات ہمیشہ قابل توجہ و تعجب ہے کہ ایک طرف انبیاء، اوصیاء، صلحاء، علماء کی تعلیمات، صدیوں کی تربیت، بے شمار دلائل۔ دوسری طرف ایک بیل کی آواز یا اس سے بھی کمتر چیز پر لوگ فریفتہ ہو جاتے ہیں۔ وکم سمعنا خواراً فی عصرنا ضد الثوابت الدینیۃ فی مسئلۃ التوحید و نفی الشرک ۔

اہم نکات

۱۔ ہدایت کی طرف لانے کا کام کس قدر مشکل اور گمراہی کی طرف جانے کے لیے ایک خفیف سا واہمہ کافی ہے۔


آیات 87 - 89