آیت 86
 

فَرَجَعَ مُوۡسٰۤی اِلٰی قَوۡمِہٖ غَضۡبَانَ اَسِفًا ۬ۚ قَالَ یٰقَوۡمِ اَلَمۡ یَعِدۡکُمۡ رَبُّکُمۡ وَعۡدًا حَسَنًا ۬ؕ اَفَطَالَ عَلَیۡکُمُ الۡعَہۡدُ اَمۡ اَرَدۡتُّمۡ اَنۡ یَّحِلَّ عَلَیۡکُمۡ غَضَبٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ فَاَخۡلَفۡتُمۡ مَّوۡعِدِیۡ﴿۸۶﴾

۸۶۔ چنانچہ موسیٰ غصے اور حزن کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹے، بولے: اے میری قوم ! کیا تمہارے رب نے تم سے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا مدت تمہارے لیے لمبی ہو گئی تھی؟ یا تم نے یہ چاہا کہ تمہارے رب کا غصہ تم پر آکر رہے؟ اسی لیے تم نے میرے ساتھ وعدہ خلافی کی؟

تفسیر آیات

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب چالیس راتوں میں توریت حاصل کی تو اللہ نے یہ خبر دی کہ آپ ؑکی قوم سامری کے ہاتھوں گمراہ ہو گئی ہے جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام گمراہ کرنے والوں پر غصے اور گمراہ ہونے والوں پر حزن و ملال غَضۡبَانَ اَسِفًا کی حالت میں واپس آگئے۔

اَلَمۡ یَعِدۡکُمۡ رَبُّکُمۡ وَعۡدًا حَسَنًا: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا: کیا تمہارے رب نے تم سے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ یہ وعدۂ حسن توریت کی شکل میں ایک دستور حیات تھا جس میں بنی اسرائیل کے لیے دنیا اور دین کی سعادتیں موجود تھیں یا بنی اسرائیل کو زمین کا وارث بنانے کا وعدہ تھا۔

اَفَطَالَ عَلَیۡکُمُ الۡعَہۡدُ: کیا اتنی مدت گزر گئی تھی کہ تم میری واپسی سے مایوس ہوگئے ہو۔ صرف چالیس راتوں کی مدت میں دین سے کلی انحراف؟ یہ تو غضب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

فَاَخۡلَفۡتُمۡ مَّوۡعِدِیۡ: بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ان کی غیر حاضری کے دنوں کے لیے جو وعدہ کیا تھا، وہ وعدہ ان کے جانشین حضرت ہارون علیہ السلام کی اطاعت تھی۔

اہم نکات

۱۔ انبیاء علیہم السلام کے بعد مفاد پرست لوگ نبی کے عہد پر باقی نہیں رہنے دیتے۔


آیت 86