آیت 85
 

قَالَ فَاِنَّا قَدۡ فَتَنَّا قَوۡمَکَ مِنۡۢ بَعۡدِکَ وَ اَضَلَّہُمُ السَّامِرِیُّ﴿۸۵﴾

۸۵۔ فرمایا: پس آپ کے بعد آپ کی قوم کو ہم نے آزمائش میں ڈالا ہے اور سامری نے انہیں گمراہ کر دیا ہے۔

تفسیر آیات

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چالیس دن گزارنے کے بعد خبر دی کہ آپ کی قوم آزمائش میں آکر گمراہ ہو گئی ہے۔

فَتَنَّا قَوۡمَکَ: اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ لوگوں کے ایمان کا امتحان لیا جائے تاکہ لوگوں کے ایمان کی حقیقت عملاً ظاہر ہو جائے۔ جیسا کہ روایت ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:

ان الناس عبید الدنیا والدین لعق علی السنتہم یحوطونہ مادرت معایشہم فاذا محصوا بالبلاء قل الدیانون ۔ (تحف العقول ص ۲۴۵)

لوگ دنیا پرست ہوتے ہیں۔ دین صرف ان کی زبانوں پر ایک چکھائی سے زیادہ نہیں ہے۔ جب (دین کے ساتھ) ان کی معیشت چلتی ہے اس وقت دین کو اپنا لیتے ہیں اور جب آزمائش کے ذریعہ چھانٹی ہو جائے تو دیندار تھوڑے رہ جاتے ہیں۔

بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے معجزات دکھائے۔ فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دی اور اس کے بعد ایک مختصر عرصے کے لیے امتحان میں بٹھا دیا۔

وَ اَضَلَّہُمُ السَّامِرِیُّ: سامری نے گو سالہ پرستی کے ذریعے ان کو گمراہی میں ڈال دیا۔

سامری کون ہے؟ سامری ایک شخص کا نام نہیں ہے بلکہ کسی مقام، نسل یا قبیلے کی طرف نسبت ہے۔ سامری یعنی سمر والا۔

i۔ بعض اہل تحقیق کے مطابق قدیم مصری زبان میں غیر ملکی، پردیسی کو سمر کہتے تھے۔ ممکن ہے کوئی اجنبی بنی اسرائیل کے ساتھ ہو گیا ہو۔ چنانچہ بعض یہودی روایات میں آیا ہے کہ یہ شخص مصری تھا جو بنی اسرائیل کے ساتھ مصر سے نکل آیا تھا۔

ii۔ سمیری نام کی ایک قوم عراق میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں آباد تھی۔ ممکن ہے کوئی شخص اس قوم سے متعلق مصر میں آباد تھا جو بنی اسرائیل کے ساتھ مصر سے نکل آیا ہو۔

iii۔ بائبل میں آیا ہے کہ اسرائیل کے ایک فرمانروا نے ایک شخص سے ایک پہاڑ خریدا جس پر اس نے بعد میں دارالامارت تعمیر کیا۔ جس شخص سے یہ جگہ خریدی تھی اس کا نام سمر تھا۔ اسی لیے بعد میں اس شہر کا نام ’’ سامریہ ‘‘ رکھا گیا۔ ( سلاطین ۱۶ ۔ ۴۲)

iv۔ سامری سے مراد ہو سکتا ہے سامری العقیدہ ہو۔ اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں گو سالہ پرست کو سامری نہیں کہتے تھے تاہم حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کئی صدیوں بعد ایک نسل پیدا ہو گئی تھی جو گوسالہ پرستی میں شہرت رکھتی تھی۔ اس گوسالہ پرست قوم کو سامری کہتے تھے۔ قرآن نے گوسالہ پرست شخص کے لیے وہی نام دیا ہو جو نزول قرآن کے وقت یہودیوں میں رائج تھا۔ اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں یہ نام رائج نہ تھا۔

v۔ صاحب تفسیر من ھدی القرآن لکھتے ہیں:

سامری سمرون کی اولاد میں سے تھا اور اس کے باپ کا نام یشاکر تھا جو یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا۔

ان سب میں زیادہ قابل اطمینان تحقیق علامہ بلاغی کی ہے۔ آپ الھدی الی دین المصطفیٰ ۱:۱۰۳ میں لکھتے ہیں:

جس سامری کا قرآن میں ذکر ہے وہ شہر السامرۃ کی طرف منسوب نہیں ہے بلکہ یہ شہر شمرون کی طرف منسوب ہے جو حضرت موسیٰ اور حضرت شمعون علیہما السلام کے زمانے میں آباد تھا۔ اس شہر کی طرف منسوب کو شمرونی کہتے ہیں۔ اس کا عربی تلفظ سامری ہے۔ اس کی جمع شمرونیم ہے۔ سامرییین ۔ اسے یوشع نے فتح کر کے (زبولون) خاندان کے زیرنگیں کر دیا ملاحظہ ہو: سفر یشوع۔ صحاح ۱۱۔ واضح رہے عبری زبان کی شین عربی میں سین میں بدل جاتی ہے۔ جیسے یشوع، یسوع میں اور موشیٰ، موسیٰ میں بدل جاتا ہے۔ اسی طرح یہاں شمرونی، سامری میں بدل گیا ہے۔

لہٰذا ان تمام وجوہات کی بنا پر مستشرقین کا یہ اعتراض بے بنیاد ہے:

سامری کے نام سے شہرت پانے والی قوم حضرت موسیٰ سے صدیوں بعد وجود میں آئی ہے۔ قرآن کے مصنف نے لاعلمی میں اس کو حضرت موسیٰ کا معاصر بتا دیا۔

اہم نکات

۱۔ انبیاء کی محنتوں پر پانی پھیرنے والے سامری ہر جگہ ہوتے ہیں۔


آیت 85