آیات 83 - 84
 

وَ مَاۤ اَعۡجَلَکَ عَنۡ قَوۡمِکَ یٰمُوۡسٰی﴿۸۳﴾

۸۳۔ اور (فرمایا) اے موسیٰ! آپ نے اپنی قوم سے پہلے (آنے میں)جلدی کیوں کی؟

قَالَ ہُمۡ اُولَآءِ عَلٰۤی اَثَرِیۡ وَ عَجِلۡتُ اِلَیۡکَ رَبِّ لِتَرۡضٰی﴿۸۴﴾

۸۴۔ موسیٰ نے عرض کیا: وہ میرے پیچھے آ رہے ہیں اور میرے رب ! میں نے تیری طرف (آنے میں) جلدی اس لیے کی کہ تو خوش ہو جائے ۔

تفسیر آیات

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قوم سے ستر سرداران کومنتخب کر کے کوہ طور پر حاضر ہونے کا حکم ملا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نقبائے قوم سے پہلے کوہ طور پر پہنچ گئے۔

وَ مَاۤ اَعۡجَلَکَ: عام طور پر قافلہ سالار، قافلے کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جواب سننے کے لیے یہ سوال فرمایا ورنہ خود اللہ بہتر جانتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جلدی کیوں کی۔

وَ عَجِلۡتُ اِلَیۡکَ رَبِّ لِتَرۡضٰی: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں عرض کیا: یہ عجلت، جلدی تیری رضاجوئی کے لیے تھی۔ تجھ سے مناجات کی حلاوت، راز و نیاز کے کیف و سرور اور تیری قربت کی چاشنی نے مجھے عجلت کرنے پر مجبور کیا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اس سے پہلے بھی کوہ طور پر اللہ تعالیٰ سے مناجات اور راز و نیاز کی لذت سے آشنا ہو چکے تھے۔ چنانچہ فرمایا:

وَ نَادَیۡنٰہُ مِنۡ جَانِبِ الطُّوۡرِ الۡاَیۡمَنِ وَ قَرَّبۡنٰہُ نَجِیًّا (۱۹ مریم: ۵۲)

اور ہم نے انہیں طور کی داہنی جانب سے پکارا اور رازدار بنانے کے لیے انہیں قربت عطا کی۔

اسی جگہ نبوت ملی، قربت ملی، حرم الٰہی کی راز داری کے کیف و سرور کی لذت ملی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی موسیٰ علیہ السلام کی اس عجلت کی وجہ سے مدت مناجات بڑھا کر تیس سے چالیس رات کر دی۔ لہٰذا اس جگہ کی طرف دوبارہ آتے ہوئے عجلت سے کام لینا ایک اجتہادی عمل نہ تھا۔ جس کا کوئی سابقہ نہ ہو، جس پر کوئی دلیل نہ ہو، وہاں غیر انبیاء کے لیے اجتہاد کی نوبت آتی ہے۔ لہٰذا غیر شیعہ مفسرین کا یہ کہنا تعجب کا مقام ہے:

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے اجتہاد سے یہ خیال کیا کہ وعدہ گاہ پر حاضری میں پیش قدمی کرنا اور زیادہ خوشنودی کا سبب ہو گا۔ (دریابادی: ۶۴۷ بحوالہ مدارک)

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اجتہاد در مقابل نص کو میدان دینے کے لیے اجتہاد در مقابل نص کر رہے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ عاشقان خدا کے لیے رضائے رب میں تاخیر قابل تحمل نہیں ہوتی: لِتَرۡضٰی ۔۔۔۔


آیات 83 - 84