آیات 81 - 83
 

وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمۡ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنَ الۡجِبَالِ اَکۡنَانًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ سَرَابِیۡلَ تَقِیۡکُمُ الۡحَرَّ وَ سَرَابِیۡلَ تَقِیۡکُمۡ بَاۡسَکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ یُتِمُّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تُسۡلِمُوۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ اور اللہ نے تمہارے لیے اپنی پیدا کردہ چیزوں سے سائے بنائے اور پہاڑوں میں تمہارے لیے پناہ گاہیں بنائیں اور تمہارے لیے ایسی پوشاکیں بنائیں جو تمہیں گرمی سے بچائیں اور ایسی پوشاکیں جو تمہیں جنگ سے بچائیں، اس طرح اللہ تم پر اپنی نعمتیں پوری کرتا ہے شاید تم فرمانبردار بن جاؤ۔

فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡکَ الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ﴿۸۲﴾

۸۲۔ پھر اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو (اے رسول) آپ کی ذمے داری تو صرف واضح انداز میں تبلیغ کرنا ہے۔

یَعۡرِفُوۡنَ نِعۡمَتَ اللّٰہِ ثُمَّ یُنۡکِرُوۡنَہَا وَ اَکۡثَرُہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ﴿٪۸۳﴾

۸۳۔ یہ لوگ اللہ کی نعمت کو پہچان لیتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر تو کافر ہیں۔

تشریح کلمات

اَکۡنَانًا:

( ک ن ن ) الکِنُّ ہر وہ چیز جس میں کسی چیز کو محفوظ رکھا جائے۔ کَاَنَّہُنَّ بَیۡضٌ مَّکۡنُوۡنٌ﴿﴾ ۔ (۳۷ صافات: ۹۴) گویا کہ وہ محفوظ انڈے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمۡ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا: غروب آفتاب کے بعد خود زمین کا سایہ، درخت، پہاڑ اور دیواروں کے سائے انسانی زندگی کے لیے نہایت ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر یہ سائے نہ ہوتے تو زمین پر زندگی کا باقی رہنا ممکن نہ ہوتا۔

۲۔ مِّنَ الۡجِبَالِ اَکۡنَانًا: گرم ترین علاقوں میں مسافر کے لیے گرمی سے بچنے کے لیے غار بہترین جگہ ہے۔

۳۔ جَعَلَ لَکُمۡ سَرَابِیۡلَ تَقِیۡکُمُ الۡحَرَّ: پوشاکوں کے بارے میں گرمی سے بچانے کا ذکر کیا۔ سردی سے بچانے کا ممکن ہے اس لیے ذکر نہ کیا ہو کہ جو لباس انسان کو گرمی سے بچاتا ہے وہی سردی سے بھی بچاتا ہے۔ آپس کی جنگوں میں انسان کو تحفظ دینے والی پوشاک سے مراد زرہ ہیں۔

اتمام نعمت کے بارے میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی ضرورت کے لیے کسی چیزکی کمی نہیں چھوڑی۔ انسانی تحفظ کے لیے مکان، سایہ، لباس، غار، زرہ وغیرہ فراہم فرمائے۔ ان پہلوؤں سے اللہ نے نعمت پوری فرمائی۔ اسی طرح انسانی ضرورت اور خواہش کے دیگر پہلوؤں میں کوئی نقص نہیں چھوڑا پھر بھی اے مشرکو !تم اللہ کے علاوہ دوسروں سے تدبیر زندگی کی امیدیں لگائے بیٹھے ہو۔

۴۔ کَذٰلِکَ یُتِمُّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکُمۡ: تمہارے انکار کے باوجود اللہ اپنی نعمتیں تم پر پوری کر رہا ہے۔ شاید تم تسلیم کرو کہ تمہارا رب اللہ ہے۔

۵۔ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا: اگر وہ ان دلائل کے باوجود صرف اللہ کو رب ماننے سے منہ موڑ لیں تو اے رسول آپ کے ذمے راستہ دکھانا ہے۔ منوانا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔

۶۔ یَعۡرِفُوۡنَ نِعۡمَتَ اللّٰہِ: یہ مشرکین سمجھتے تو ہیں یہ ساری نعمتیں اللہ کی طرف سے ہیں مگر وہ ان نعمتوں کی نسبت، جان بوجھ کر یا جبر معاشرہ کی وجہ سے اپنے معبودوں کی طرف دیتے ہیں۔

وَ اَکۡثَرُہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ: فرمایا جب کہ سب کافر تھے۔ اس کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ ایسا عقیدہ رکھنے والوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جن پر ابھی حجت پوری نہ ہوئی ہو چونکہ ان کی فکری اور عقلی بلوغت اس حد تک نہیں ہوتی کہ معاشرے کی سوچ سے ہٹ کر کسی بات کو سمجھ لیں۔

اہم نکات

۱۔ انسانی تمدن اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق ہے۔

۲۔ مشرک اللہ کی نعمت کا جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں۔


آیات 81 - 83