آیات 43 - 44
 

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۴۳﴾

۴۳۔ اور ہم نے آپ سے قبل صرف مردان (حق) رسول بنا کر بھیجے ہیں جن پر ہم وحی بھیجا کرتے ہیں، اگر تم لوگ نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔

بِالۡبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ ؕ وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ﴿۴۴﴾

۴۴۔ (جنہیں) دلائل اور کتاب دے کر بھیجا تھا اور (اے رسول) آپ پر بھی ہم نے ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو وہ باتیں کھول کر بتا دیں جو ان کے لیے نازل کی گئی ہیں اور شاید وہ (ان میں) غور کریں۔

تفسیر آیات

اللہ تعالیٰ نے جب بھی اہل ارض کی طرف کسی رسول کو بھیجا ہے تو انہی آدمیوں کو وحی دے کر بھیجا ہے جن کے پاس اگر کوئی طاقت تھی تو وہ بینات و زبر کی طاقت تھی، دلیل و منطق کی طاقت۔ ان کو مافوق البشر طاقت کی اجازت دے کر نہیں بھیجا کہ اس طاقت کے ذریعے وہ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کریں۔ اگر اللہ کی سنت اس قسم کی طاقت استعمال کرنے کی ہوتی تو آج کے مشرک یہ کہہ سکتے تھے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرسکتے۔ اس بارے میں یہ حکم ہوا: گزشتہ انبیاء کے بارے میں اگر تم جاننا چاہتے تو اہل ذکر سے پوچھ لو کیا وہ انسان تھے یا کوئی مافوق البشر تھے؟

فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ: یہاں شان نزول کے اعتبار سے فَسۡـَٔلُوۡۤا کے مخاطب مشرکین ہیں کہ اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھ لو جو گزشتہ انبیاء کے بارے میں جانتے ہیں۔ وہ بنا بقول مفسرین اہل کتاب ہیں۔

تفسیر میں ایک مسلمہ کلیہ ہے جسے تمام مسالک کے مفسرین مانتے ہیں: العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص المورد ۔ لفظ کے عموم کا لحاظ کیا جاتا ہے، خصوص کے نزول کا نہیں۔ لہٰذا اگر آیت کسی خاص مورد کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو اسی مورد کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتی بلکہ لفظ میں اگر گنجائش ہے تو اس مورد کے علاوہ دیگر تمام موارد شامل ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہاں آیت اگرچہ گزشتہ انبیاء کا حال جاننے والوں سے پوچھنے کے بارے میں ہے لیکن آیت کا عموم ہر نہ جاننے والے کے لیے جاننے والوں کی طرف رجوع کرنا واجب ہونے پر دلالت کرتا ہے کہ اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔ ظاہر ہے جیسا کہ سابقہ کتب کو بھی الذکر کہا گیا، قرآن کو بھی کئی جگہ الذکر کہا ہے۔ لہٰذا قرآن جاننے والوں کی طرف رجوع کرنے کا حکم اسی آیت سے ثابت ہو سکتا ہے۔

اسی سے جابر کی یہ روایت سمجھ میں آ جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لا ینغبی للعالم ان یسکت علی علمہ ولا ینبغی للجاہل ان یسکت علی جھلہ و قد قال اللّٰہ فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ فینبغی للمؤمن ان یعرف عملہ علی ہدی ام علی ضلال ۔ ( تفسیر الدار المنثور ۴: ۲۲۲)

عالم کو اپنے علم اور جاہل کو اپنی جہالت پر سکوت اختیار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔ لہٰذا مؤمن کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل کے بارے میں جان لے کہ ہدایت پر ہے یا ضلالت پر۔

چنانچہ ابن عباس کے نزدیک اَہۡلَ الذِّکۡرِ سے مراد، اہل قرآن ہیں۔

یہاں سے ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے منقول روایات بھی قابل فہم ہو جاتی ہیں۔ حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام و حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے روایت ہے:

نحن اَہۡلَ الذِّکۡرِ و نحن المسؤلون ۔ ( تفسیر المیزان بحوالہ تفسیر عیاشی )

ہم اہل ذکر ہیں اور ہم ہی سے سوال کیا جانا چاہیے۔

اس سلسلے میں اہل سنت کے مصادر کے لیے رجوع ہو: احقاق الحق ۳: ۴۱۲

اسی سے نزدیک انس کی یہ روایت ہے:

سمعت رسول اللّٰہ یقول: ان الرجل لیصلی ویصوم ویحج و یعتمر وانہ لمنافق قیل: یارسول بماذا دخل علیہ النفاق؟ قال یطعن علی امامہ و امامہ من قال اللّٰہ تعالیٰ فی کتابہ فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ( روح المعانی ۱۴: ۱۴۷۔ الدرالمنثور ۴: ۲۲۲۔ اس موضوع پر مزید تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر شواھد التنزیل ۱: ۴۳۴ ذیل آیہ)۔

میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا: آدمی نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، حج و عمرہ بجا لاتا ہے اور وہ منافق ہوتا ہے۔ سوال کیا گیا: یا رسول اللہ! اس میں نفاق کیسے داخل ہو گیا؟ فرمایا: وہ اپنے امام کو قابل اعتماد نہیں سمجھتا جب کہ اس کے امام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا: فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ -

ہمارے اس بیان سے اس اعتراض کا جواب بھی آ گیا کہ خطاب مشرکین سے ہے۔ وہ خود رسول ؐ کو نہیں مانتے تھے، ان کے اہل بیت (ع) کو کیسے مان لیں گے؟

اہم نکات

۱۔ تمام انبیاء علیہم السلام انسان تھے۔

۲۔ نہ جاننے والوں کو جاننے والوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

۳۔ اثبات رسالت کے لیے اہل کتاب سے رجوع کرنا چاہیے تو حفظ رسالت کے لیے اہل قرآن (ائمہ اہل بیتؑ) سے رجوع کرنا چاہیے۔


آیات 43 - 44