آیات 41 - 42
 

وَ الَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا فِی اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُوۡا لَـنُبَوِّئَنَّہُمۡ فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً ؕ وَ لَاَجۡرُ الۡاٰخِرَۃِ اَکۡبَرُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۴۱﴾

۴۱۔ اور جنہوں نے ظلم کا نشانہ بننے کے بعد اللہ کے لیے ہجرت کی انہیں ہم دنیا ہی میں ضرور اچھا مقام دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے، اگر وہ جانتے ہوتے۔

الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡا وَ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے صبر کیا اور جو اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

بعض مفسرین نے کہا ہے: یہ آیت مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والوں کی شان میں ہے۔

ان کا یہ موقف ہو گا کہ اس سورت کی یہ آیتیں مدنی ہیں۔ جو لوگ اس پورے سورہ کو مکی قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک یہ آیت حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

ہجرت اگر فی اللّٰہ، لوجہ اللّٰہ صرف رضایت الٰہی کی غرض سے ہو، ہجرت سے پہلے ظلم سہ چکے ہوں تو ان کے لیے دنیا و آخرت دونوں میں اس کی جزا کا ذکر ہے۔ دنیا میں اجر یہ ہو گا کہ جس وطن کو راہ خدا میں خیر باد کہہ دیا ہے، اس سے بہتر وطن عنایت ہو گا اور آخرت کا اجر تو دنیوی سے کہیں بہتر و بالاتر ہو گا۔ اس کا اندازہ اس دنیا، عالم بشر میں نہیں لگایا جا سکتا۔ اس لیے فرمایا: آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے اگر یہ جانتے ہوتے۔ آخر آیت ان مہاجرین کے لیے دو شرطوں کا اور ذکر فرمایا: صبر اور توکل۔

اہم نکات

۱۔ ان مہاجرین کے لیے دارین کی سعادت ہے جو مظلوم واقع ہوئے، راہ خدا میں ہجرت کی اور صبر و توکل سے کام لیا۔


آیات 41 - 42