آیات 45 - 47
 

اَفَاَمِنَ الَّذِیۡنَ مَکَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنۡ یَّخۡسِفَ اللّٰہُ بِہِمُ الۡاَرۡضَ اَوۡ یَاۡتِیَہُمُ الۡعَذَابُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔ جو بدترین مکاریاں کرتے ہیں کیا وہ اس بات سے بے خوف ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ان پر ایسی جگہ سے عذاب آئے کہ جہاں سے انہیں خبر ہی نہ ہو؟

اَوۡ یَاۡخُذَہُمۡ فِیۡ تَقَلُّبِہِمۡ فَمَا ہُمۡ بِمُعۡجِزِیۡنَ ﴿ۙ۴۶﴾

۴۶۔ یا انہیں آتے جاتے ہوئے (عذاب الٰہی) پکڑ لے؟ پس وہ اللہ کو عاجز تو کر نہیں سکتے ۔

اَوۡ یَاۡخُذَہُمۡ عَلٰی تَخَوُّفٍ ؕ فَاِنَّ رَبَّکُمۡ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ﴿۴۷﴾

۴۷۔ یا انہیں خوف میں رکھ کر گرفت میں لیا جائے؟ پس تمہارا رب یقینا بڑا شفقت کرنے والا، مہربان ہے۔

تشریح کلمات

تَخَوُّفٍ:

( خ و ف ) کسی انسان کا اظہار خوف کرنا۔ بعض نے تَخَوُّفٍ کے معنی تنقّص سے کیا ہے۔ اس صور ت میں آیت کا ترجمہ اس طرح بنے گا: یا ان کو (مال و دولت کے) گھٹانے کے ذریعے گرفت میں لیا جائے۔

تَقَلب:

( ق ل ب ) آمد و رفت کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَفَاَمِنَ الَّذِیۡنَ مَکَرُوا السَّیِّاٰتِ: کیا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایذاء کے لیے بدترین سازش کرنے والے یہ خیال نہیں کرتے کہ اللہ ان کو کسی زمینی آفت میں مبتلا کر دے۔

۲۔ اَنۡ یَّخۡسِفَ اللّٰہُ: ان پر نزول عذاب کے لیے کسی خاص وقت مقام اور ذرائع کی ضرورت نہیں ہے۔ بیٹھے بیٹھے زمین میں دھنس سکتے ہیں۔ غیر متوقع جگہ سے عذاب آ سکتا ہے۔ جیسا کہ جنگ بدر میں بالکل غیر متوقع جگہ سے ان پر عذاب آیا۔

۳۔ اَوۡ یَاۡخُذَہُمۡ فِیۡ تَقَلُّبِہِمۡ: یا کسی تجارت وغیرہ کے سفر میں جاتے آتے ہوئے عذاب آ سکتا ہے۔

۴۔ اَوۡ یَاۡخُذَہُمۡ عَلٰی تَخَوُّفٍ: کچھ نہ ہوا اور اللہ نے اپنی شفقت و رحمت سے کام لیا تو خوف و ہراس میں تو مبتلا کیا جا سکتا ہے۔ دوسری تشریح کے مطابق اللہ نے اگر رحم کیا تو مال و دولت کو گھٹا کر تم کو کم سے کم سزا دے سکتا ہے۔

۵۔ فَاِنَّ رَبَّکُمۡ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ: ذکر عذاب کے بعد اللہ کی رأفت و رحمت کا ذکر کیسے آیا؟ جواب یہ ہے کہ مجرمین کے جرم کی سزا میں سے کم تر سزا کے ذکر فرمایا۔ پھر فرمایا: کمتر سزا اس لیے ہے کہ اللہ شفیق مہربان ہے۔

اہم نکات

۱۔ کافر کسی طرح بھی امن کا مستحق نہیں ہے: اَفَاَمِنَ الَّذِیۡنَ ۔۔۔۔

۲۔ سازشی زمین میں دھنس سکتا ہے: اَنۡ یَّخۡسِفَ ۔۔۔۔


آیات 45 - 47