آیات 34 - 38
 

قَالَ فَاخۡرُجۡ مِنۡہَا فَاِنَّکَ رَجِیۡمٌ ﴿ۙ۳۴﴾

۳۴۔ اللہ نے فرمایا: نکل جا! اس مقام سے کیونکہ تو مردود ہو چکا ہے ۔

وَّ اِنَّ عَلَیۡکَ اللَّعۡنَۃَ اِلٰی یَوۡمِ الدِّیۡنِ﴿۳۵﴾

۳۵۔ اور تجھ پر تا روز قیامت لعنت ہو گئی۔

قَالَ رَبِّ فَاَنۡظِرۡنِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ﴿۳۶﴾

۳۶۔ کہا : میرے رب! پھر مجھے لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن (قیامت) تک مہلت دے دے۔

قَالَ فَاِنَّکَ مِنَ الۡمُنۡظَرِیۡنَ ﴿ۙ۳۷﴾

۳۷۔ فرمایا: تو مہلت ملنے والوں میں سے ہے

اِلٰی یَوۡمِ الۡوَقۡتِ الۡمَعۡلُوۡمِ﴿۳۸﴾

۳۸۔ معین وقت کے دن تک۔

تشریح کلمات

رَجِیۡمٌ:

( ر ج م ) الرجام پتھر کو کہتے ہیں۔ اسی سے الرجم ہے جو سنگ باری کرنے کے معنوں میں ہے۔ پھر بطور استعارہ رجم توہین، سب و شتم اور کسی کو دھتکارنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

اللَّعۡنَۃَ:

( ل ع ن ) اللعن کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کر دینا اور دھتکار دینا۔ اللہ کی طرف سے کسی پر لعنت سے یہ مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے محروم اور آخرت میں عقوبت کا مستحق قرار پائے۔

تفسیر آیات

ابلیس کو اپنی درگاہ سے راندہ کرنے کے بعد فرمایا تا روز قیامت تم پر لعنت ہے۔ شاید ابلیس نے ’’تاروز قیامت‘‘ سے یہ مفہوم اخذ کیا ہو کہ اسے قیامت تک انسان سے واسطہ پڑنے کا امکان ہے۔ یہاں سے اس نے اللہ سے مہلت مانگی۔ یہ مہلت قیامت تک کے لیے مانگی تھی مگر ایک معلوم وقت تک کے لیے مہلت دے دی گئی۔

ابلیس کو مہلت دینے پر یہ سوال پیدا کیا جاتا ہے کہ ابلیس کو مہلت اور موقع دے کر قدرت نے خود اسباب ضلالت فراہم کیے۔

جواب یہ ہے کہ اولاً ابلیس کو انسانوں پر اتنا تسلط حاصل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ ہونے پر مجبور کرے۔ وہ صرف سبز باغ دکھا سکتا ہے۔ ثانیاً اللہ نے اگر ابلیس کو مہلت دی ہے اور گمراہی پھیلانے کا موقع دیا ہے تو اس کے مقابلے میں رشد و ہدایت کے بھی بہت سے اسباب فراہم کیے ہیں۔ اللہ نے انسان کو توحید کی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ اس کی جبلت میں حق کی معرفت کی استعداد ودیعت فرمائی ہے:

فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪﴿﴾ (۹۱ شمس: ۸)

پھر اس نفس کو اس کی بدکاری اور اس سے بچنے کی سمجھ دی۔

انبیاء بھیجے ہیں۔ ملائکہ بھی انسان کو راہ راست پر ڈالنے کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ان دونوں مواقع کی موجودگی میں امتحان لیا جا سکتا اور آزمائش کی جا سکتی ہے۔ اگر معاملات یکطرفہ ہوتے تو امتحان نامعقول ہوتا اور ثواب و عقاب کا نظام ممکن نہ ہوتا۔ اس لیے انسان کو خیر و شر کے درمیان کھڑا کیا گیا کہ وہ اپنے اختیار سے جسے چاہے انتخاب کرے۔

اہم نکات

۱۔رب کہہ کر پکارنے سے ابلیس تک کی دعا قبول ہو جاتی ہے: رَبِّ فَاَنۡظِرۡنِیۡۤ ۔۔۔۔


آیات 34 - 38