آیت 62
 

قَالُوۡا یٰصٰلِحُ قَدۡ کُنۡتَ فِیۡنَا مَرۡجُوًّا قَبۡلَ ہٰذَاۤ اَتَنۡہٰنَاۤ اَنۡ نَّعۡبُدَ مَا یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا وَ اِنَّنَا لَفِیۡ شَکٍّ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَاۤ اِلَیۡہِ مُرِیۡبٍ﴿۶۲﴾

۶۲۔ انہوں نے کہا : اے صالح! اس سے پہلے ہم تم سے بڑی امیدیں وابستہ رکھتے تھے، اب کیا ان معبودوں کی پوجا کرنے سے تم ہمیں روکتے ہو جن کی ہمارے باپ دادا پوجا کرتے تھے ؟ اور جس بات کی طرف تم ہمیں دعوت دے رہے ہو اس بارے میں ہمیں شبہ انگیز شک ہے ۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالُوۡا یٰصٰلِحُ قَدۡ کُنۡتَ فِیۡنَا: اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام رسالت پر مبعوث ہونے سے قبل اپنی قوم میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ قوم کو ان کی فہم و فراست اور اعلیٰ صلاحیتوں سے کچھ امیدیں وابستہ تھیں۔ ممکن ہے حضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم کی تہذیب و تمدن، تعمیر و ترقی کے امور اور اعلیٰ انسانی قدروں کے مالک ہونے کی وجہ سے اعتماد و امانت کے اعتبار سے امیدوں کا مرکز ہوں جیسا کہ مکہ والے جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں پہلے اس قسم کا موقف رکھتے تھے۔ امانت و اعتماد اور اعلیٰ انسانی قدروں کے مالک ہونے کی وجہ سے وہ مرکز توجہ تھے۔ اب جب ان کے معبودوں کے خلاف قدم اٹھایا ہے تو ان کے درمیان منفور ہو گئے، اعتماد اٹھ گیا۔

اہم نکات

۱۔ ہر پیغمبر تمام انسانی و اخلاقی قدروں میں اپنے زمانے کے سب لوگوں سے بہتر ہوتا ہے: قَدۡ کُنۡتَ فِیۡنَا مَرۡجُوًّا ۔۔۔


آیت 62