آیت 61
 

وَ اِلٰی ثَمُوۡدَ اَخَاہُمۡ صٰلِحًا ۘ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ ہُوَ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَ اسۡتَعۡمَرَکُمۡ فِیۡہَا فَاسۡتَغۡفِرُوۡہُ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ قَرِیۡبٌ مُّجِیۡبٌ ﴿۶۱﴾

۶۱۔اور ثمود کی طرف ان کی برادری کے فرد صالح کو بھیجا، انہوں نے کہا : اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اس میں تمہیں آباد کیا لہٰذا تم اسی سے مغفرت طلب کرو پھر اس کے حضور توبہ کرو، بے شک میرا رب بہت قریب ہے، (دعاؤں کا) قبول کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قوم ثمود کی تاریخ کی تفصیل الاعراف آیت ۷۳ میں ملاحظہ فرمائیں۔

۲۔ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ: حضرت صالح علیہ السلام کی دعوت کا مرکزی نکتہ وہی ہے جو تمام انبیاء کا ہے: اے قوم! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ اس دعوت توحید کے لیے یہ دلیل پیش کی ہے: بندگی اس ذات کی ہونی چاہیے جس نے تم کو زندگی دی اور زندہ رہنے کے وسائل بھی دیے۔

۳۔ ہُوَ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ: تمہیں اسی مردہ زمین سے پیدا کیا اور زندگی عطا کی۔

۴۔ وَ اسۡتَعۡمَرَکُمۡ فِیۡہَا: تمہیں اسی زمین میں آباد کیا اور زندہ رہنے کے وسائل بھی دیے۔ اس جملے اور سورۃ الاعراف آیت ۷۴ کے جملے:

وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَکُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ عَادٍ وَّ بَوَّاَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ تَتَّخِذُوۡنَ مِنۡ سُہُوۡلِہَا قُصُوۡرًا وَّ تَنۡحِتُوۡنَ الۡجِبَالَ بُیُوۡتًا ۔۔۔۔

اور تمہیں زمین میں آباد کیا، تم میدانوں میں محلات تعمیر کرتے ہو اور پہاڑ کو تراش کر مکانات بناتے ہو۔

سے اس قوم کے تمدن و ترقی اور زمین کی سرسبزی کا اندازہ ہوتا ہے۔

حضرت صالح علیہ السلام کے زمانے کے لوگ بت پرست تھے۔ وہ بتوں کو اللہ تک پہنچنے کے لیے وسیلہ سمجھتے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ تک پہنچنا براہ راست ممکن نہیں ہے۔ اس نظریے کی رد میں فرمایا:

۵۔ فَاسۡتَغۡفِرُوۡہُ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ: جس نے تمہیں پیدا اور زمین میں آباد کیا اور ہر آن تمہیں زندگی کے وسائل فراہم کرتا ہے اس کے اور تمہارے درمیان کون سی چیز حائل ہو سکتی ہے تم۔ براہ راست اس سے استغفار کرو۔ اس کی طرف رجوع کرو تو اِنَّ رَبِّیۡ قَرِیۡبٌ مُّجِیۡبٌ میرا رب قریب ہے، دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔

اہم نکات

۱۔ جو انسان کا خالق ہے وہی معبود ہوتا ہے: ہُوَ اَنۡشَاَکُمۡ ۔۔۔۔

۲۔ انسان زمین کی آباد کاری کا ذمے دار ہے: وَ اسۡتَعۡمَرَکُمۡ فِیۡہَا ۔۔۔۔

۳۔ اللہ تک رسائی کے لیے خود ساختہ وسائل نہیں ہوا کرتے: اِنَّ رَبِّیۡ قَرِیۡبٌ مُّجِیۡبٌ ۔۔۔۔


آیت 61