آیت 89
 

قَالَ قَدۡ اُجِیۡبَتۡ دَّعۡوَتُکُمَا فَاسۡتَقِیۡمَا وَ لَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِیۡلَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۸۹﴾

۸۹۔ اللہ نے فرمایا: تم دونوں کی دعا قبول کی گئی ہے پس تم دونوں ثابت قدم رہنا اور ان لوگوں کے راستے پر نہ چلنا جو علم نہیں رکھتے ۔

تفسیر آیات

۱۔ قَدۡ اُجِیۡبَتۡ: تمہاری دعا قبول ہے۔ فرعونیوں کی دولت برباد ہو گی۔ ایمان کی توفیق بھی سلب ہو جائے گی۔ عذاب الیم بھی ان کے لیے مقدر ہے۔

۲۔ فَاسۡتَقِیۡمَا: لیکن تم دونوں میں بھی مزید استقامت کی ضرورت ہے کہ دعا قبول ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ باتیں فوری طور پر وقوع پزیر ہوں گی۔ تاخیر اس لیے ہو گی کہ یہ سنت الٰہی کی بات ہے اور حکمت و مصلحت سے مربوط ہے۔

۳۔ وَ لَا تَتَّبِعٰٓنِّ: استقامت کے نتیجے کا علم بھی ضروری ہے کیونکہ علم نہ ہو تو صبر استقامت نہیں آ سکتی:

وَ کَیۡفَ تَصۡبِرُ عَلٰی مَا لَمۡ تُحِطۡ بِہٖ خُبۡرًا﴿﴾ (۱۸ الکھف: ۶۸)

اور اس بات پر بھلا آپ کیسے صبر کر سکتے ہیں جو آپ کے احاطہ علم میں نہیں ہے؟

کافی، تفسیر قمی، تفسیر عیاشی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہوئی ہے کہ فرعون اس دعا کے بعد چالیس سال تک زندہ رہا۔

اہم نکات

۱۔ صبرو استقامت کے لیے علم درکار ہے: قَالَ قَدۡ اُجِیۡبَتۡ دَّعۡوَتُکُمَا فَاسۡتَقِیۡمَا وَ لَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِیۡلَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿﴾ ۔


آیت 89