آیت 90
 

وَ جٰوَزۡنَا بِبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ الۡبَحۡرَ فَاَتۡبَعَہُمۡ فِرۡعَوۡنُ وَ جُنُوۡدُہٗ بَغۡیًا وَّ عَدۡوًا ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَدۡرَکَہُ الۡغَرَقُ ۙ قَالَ اٰمَنۡتُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیۡۤ اٰمَنَتۡ بِہٖ بَنُوۡۤا اِسۡرَآءِیۡلَ وَ اَنَا مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ﴿۹۰﴾

۹۰۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے گزار دیا تو فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب فرعون غرق ہونے لگا تو کہنے لگا: میں ایمان لے آیا کہ اس ذات کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمانوں میں سے ہو گیا ہوں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ جٰوَزۡنَا: بنی اسرائیل مصر میں فرعونی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنے آبائی وطن فلسطین کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ فلسطین جاتے ہوئے سمندر کے ساحل سے سفر کر رہے تھے کہ پیچھے سے فرعونی لشکر نے راستہ روک لیا۔ آگے سمندر ہے پیچھے فرعونی لشکر۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر شق کر کے بنی اسرائیل کو محاصرے سے نکالا اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کر دیا۔

۲۔ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَدۡرَکَہُ الۡغَرَقُ ۙ قَالَ اٰمَنۡتُ: جب فرعون کو سمندر نے گرفت میں لے لیا اور موجوں کے تھپیڑے لگنے لگے اور موت سامنے آ گئی تو کہنے لگا: میں ایمان لاتا ہوں اور ایمان کے ساتھ اطاعت و تسلیم کے لیے آمادہ ہوں : وَ اَنَا مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۔ عذاب کے مشاہدے کے بعد جب نجات کی کوئی امید نہ رہی، اَدۡرَکَہُ الۡغَرَقُ ، غرق نے گرفت میں لے لیا، اس وقت کا ایمان فائدہ نہیں دیتا چونکہ یہ اختیاری ایمان نہیں ہے۔

۳۔ کل اس نے بنی اسرائیل کو غلام اور محکوم بنا رکھا تھا۔ آج جب عذاب الٰہی کو سامنے دیکھ لیتا ہے تو ایمان و تسلیم کے لیے بنی اسرائیل کا حوالہ دیتا ہے کہ بنی اسرائیل نے جس معبود کو مانا ہے میں بھی اسے مانتا ہوں۔ جب وہ مرا تو بنی اسرائیل کی نظریاتی بالا دستی کو قبول کرکے مرا۔

اہم نکات

۱۔ تکبر کا انجام تنزل پر ہوتا ہے: اِذَاۤ اَدۡرَکَہُ الۡغَرَقُ ۙ قَالَ اٰمَنۡتُ ۔۔۔۔


آیت 90