آیت 54
 

وَ لَوۡ اَنَّ لِکُلِّ نَفۡسٍ ظَلَمَتۡ مَا فِی الۡاَرۡضِ لَافۡتَدَتۡ بِہٖ ؕ وَ اَسَرُّوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَاَوُا الۡعَذَابَ ۚ وَ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡقِسۡطِ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ﴿۵۴﴾

۵۴۔ اور جس جس نے ظلم کیا ہے اگر اس کے پاس روئے زمین کی دولت بھی ہو تب بھی وہ (عذاب سے بچنے کے لیے یہ پوری دولت) فدیہ دینے پر آمادہ ہو جائے گا اور جب عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو دل ہی دل میں پشیمان ہوں گے اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ ہو گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَوۡ اَنَّ: عذاب کی شدت اور حدت کی طرف اشارہ ہے کہ منکر اس سے بچنے کے لیے ہر قیمت ادا کرنے پر آمادہ ہو گا۔ وہ دنیا میں عذاب سے بچنے کے لیے ایک روپیہ دینے کے لیے حاضر نہ تھا، قیامت کے دن جب عذاب کا مشاہدہ کرے گا تو اگر اس کے پاس پوری روئے زمین کی دولت ہو، سب کو فدیہ میں دینے کے لیے تیار ہو گا۔ مشاہدۂ عذاب کے بعد اس میں ایمان آئے گا اور ایمان کا یہ تقاضا ہے کہ ہر چیز قربان کر دے، اپنے کو عذاب سے بچائے۔ یہ عمل دنیا میں وہ ہستیاں انجام دیتی ہیں جن کا ایمان قیامت میں مشاہدہ کرنے والوں سے بھی زیادہ ہے:

لو کشف الغطاء ما ازددت یقیناً ۔ ( (فرمان امیر المؤمنین (ع) ارشاد القلوب ۲: ۲۱۲)

اگر پردہ ہٹ بھی جائے تو میرے یقین میں اضافہ نہ ہوتا۔

یقینا اسی وجہ سے اپنی جان بھی اللہ کی مرضی کے حصول کے لیے قربان کر دیتے ہیں :

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡرِیۡ نَفۡسَہُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ ۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۲۰۷)

اور انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی رضاجوئی میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہے۔۔۔۔

۲۔ وَ اَسَرُّوا النَّدَامَۃَ: اور رسوائی کا یہ عالم ہو گا کہ وہ اپنی ندامت کا اظہار بھی نہیں کر پائیں گے اور دل ہی دل میں پچھتاتے رہیں گے۔

۳۔ وَ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡقِسۡطِ: مجرم کو اس کے جرم کے مطابق سزا دی جائے گی۔ کسی جذبہ انتقام سے نہیں ، عدل انصاف کی بنیاد پر ہو گی۔

اہم نکات

۱۔ عذاب باوجود ہولناک ہونے کے عادلانہ ہو گا: وَ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡقِسۡطِ ۔۔۔۔

۲۔ قیامت کے دن حقیقی قدریں اجاگر ہوں گی: لَافۡتَدَتۡ بِہٖ ۔۔۔۔


آیت 54